پیر پگارا :چند یادیں

پیر 11 جنوری 2021

Shabbir Ibne Adil

شبیر ابن عادل

کراچی میں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے  صحافیوں  میں سب ہی کنگری ہاؤس سے واقف ہیں ،  نیشنل اسٹیڈیم سے شاہراہ فیصل کی جانب چلیں تو دائیں طرف کنگری ہاؤس اپنی اسی شان و شوکت سے موجود ہے جیسےپیرپگارا شاہ مرداں شاہ کے دور میں تھا۔ اگرچہ اب موجودہ پیر پگارا شاہ صبغت اللہ وہاں جلوہ افروز ہیں، لیکن پہلے جیسی رونقیں اب نہیں رہیں ۔


پاکستان ٹیلی ویژن کے دور کی ان سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں، جب میں پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر تھا اور ان کی نیوز کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں میں جایا کرتا تھا۔ پیر پگارا مرحوم مجلسی شخصیت تھے ، شگفتہ مزاج  اور بہت مہمان نواز تھے۔
ایک دن  میں ان کی کسی نیوز کانفرنس میں موجود تھا، میں ان سے کسی قسم کا سوال نہیں کرتا تھا، مجھ سے فرمانے لگے کہ بابا ، تم کوئی سوال نہیں کرتا ہے ؟، کیا تم انٹلی جنس کا آدمی ہے ؟ (ازراہِ تفنن)۔

(جاری ہے)

اس پر وہاں موجود صحافیوں کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ایک دن پروگرام کے بعد پرتکلف لنچ کا اہتمام تھا، مجھ سے کہنے لگے کہ کھاؤ بابا۔ لوگ تو پاکستان کو کھا گئے اور تم کھانا کھاتے میں شرماتا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے فرائی مچھلی کی ڈش میری جانب بڑھائی ، وہ اپنے ہر مہمان سے اسی طرح پیش آیا کرتے تھے۔
 مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سی اہم شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، لیکن میں نے ان کے ساتھ فوٹو یا سیلفی بنانے سے گریز کیاان چیزوں کا شوق ہی نہیں تھا لیکن پیر صاحب پاگارا کے ساتھ میں نے ایک فوٹو ضرور بنوائی تھی وہ اب بھی میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔



10 جنوری 2012 کو معلوم ہوا کہ پیرپگارا صاحب کا پیر جوگوٹھ میں انتقال ہوگیا ، بہت افسوس ہوا ، اس سے زیادہ افسوس یہ ہوا کہ میں ان کے سفر آخرت کی نیوز کوریج کے لئے پیر جو گوٹھ نہیں جاسکے۔ کچھ آفس کے معاملات تھے۔ مجھے وہ اس لئے پسند تھے کہ وہ ایک ایسی عظیم شخصیت یعنی پیر صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف سورہیہ بادشاہ کے صاحبزادے تھےجنہوں نے  انگریز راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔


شاہ مرداں ثانی پیر پگارا   22 نومبر1928ءکو پیرجوگوٹھ میں پیدا ہوئے۔
برطانوی راج میں انیس سو بیالیس میں حُر ایکٹ نافذ کر کے حروں کو دہشت گرد قرار دیا گیااورپیر صبغت اللہ شاہ کو بغاوت کی پاداش میں گرفتار کر کے 20   مارچ   1943 کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دے دی گئی اور اس کے ساتھ ہی گدی کو معطل کردیا۔ اس کے باوجود ان کے ساتھیوں نے گوریلا کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔


1946 میں پیر صبغت اللہ شاہ کے فرزند شاہ مردان شاہ کو برطانوی حکومت نے پہلے علی گڑھ میں داخل کرایا بعد میں لندن میں نظر بند کردیا اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ تاہم لندن میں ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔
1949 میں ملک کے پہلے  وزیر اعظم لیاقت علی خان نے لندن میں پیر پگارا سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ پاکستان واپس آ جائیں تو ان کی گدی بحال کردی جائےگی۔

اس یقین دہانی کے بعد وہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سنہ 1952میں وطن واپس آئے جس کے بعد گرفتار حروں کو رہائی ملی۔
نو سال بارہ دن کے بعد 4فروری سنہ1952میں پیر پگارا کی گدی بحال کی گئی۔ اس موقع پر  خیرپور کے علاقے پیر جو گوٹھ میں ایک شاندار تقریب  میں شاہ مردان شاہ کی پیر پگارا کی حیثیت سے تاج پوشی کی گئی۔
سنہ1965کے   صدارتی انتخاب   میں  انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بجائے فیلڈ مارشل ایوب خان کا ساتھ دیا۔


سنہ 1991 میں اختلافات کے بعد مسلم لیگ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور پیر پگارا نے مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے اپنی جماعت بنا لی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت بھی پیر پگارا نے اپنی جماعت کو اس میں ضم ہونے نہیں دیا۔
پیر پگارا منفرد سٹائل کے مالک تھے۔ وہ سگار پیتے اور گھوڑوں کی دوڑ اور شکار کا شوق رکھتے تھے۔

اس کے علاوہ انہیں علم فلکیات سے بھی رغبت تھی۔ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے میکاؤ طوطا بھی پال رکھا تھا جس سے وہ ایک نجومی کا روپ لگتے تھے۔
وہ لبرل خیالات رکھتے تھے۔ روحانی پیشوا ہونے کے باوجود وہ مذہبی تبلیغ نہیں کرتے تھے اور سال میں ایک دو بار پیر جو گوٹھ میں اپنی حویلی کی محراب سے اپنے مریدوں کو دیدار کرایا کرتے تھے۔
پیر پگارا پاکستانی فوج کے قریب تصور کیے جاتے جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ میں جی ایچ کیو کا آدمی ہوں۔


ان کی حر جماعت پاک فوج کے ساتھ 1965 اور 71 کی جنگوں میں شریک تھی۔ حر جماعت آج بھی ایک ریزرو فورس تصور کی جاتی ہے جو باقاعدہ تربیت یافتہ ہے۔
پیر پگارا اکثر ذو معنی بات کیا کرتے۔ حکومت کے مستقبل کے بارے میں جب بھی ان سے سوال کیا جاتا تو ان سے ہمیشہ یہ جواب سننے کو ملتا تھا کہ مارچ میں ڈبل مارچ ہوگا یا ستمبر ستمگر ثابت ہوگا۔
 22نومبر  2011  کو ان کی آخری سالگرہ کے موقع پر غیر یقینی سیاسی صورت حال کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انتخابات ہوں گے؟ تو ان کا جواب تھا کم سے کم ان کی زندگی میں تو نہیں ہوں گے۔


پیر پگارا اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ابتدا میں دوستی رہی مگر بعد میں دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ جنرل ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے میں وفات کے بعد جب 1988 میں انتخابات ہوئے تو پیر پگارا کو پیپلز پارٹی کے امیدوار سید پرویز علی شاہ نے شکست دی جس کے بعد وہ کبھی بطور امیدوار سامنے نہیں آئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو وہ یہ کہہ کر چھیڑتے تھے کہ بلاول بھٹو ان کی جماعت میں شامل ہوں گے اور یہ وہ اس وقت سے کہہ رہے تھے جب بلاول کی پیدائش ہوئی تھی۔


پیر پگارا نے دو شادیاں کیں اور ان کے چار بیٹے ہیں جن میں پیر صبغت اللہ شاہ راشدی، علی گوہر شاہ اور صدر الدین شاہ سگے بھائی ہیں۔ پیر پگارا کی پہلی بیوی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے پھوپھی تھیں جنہیں انہوں نے طلاق دے دی بعد میں دوسری شادی کی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :