
فرقہ واریت کا ناسور
ہفتہ 17 اکتوبر 2020

شفیق عباس نقوی
(جاری ہے)
جی ہاں اگر چاہتے ہو کہ تمہاری عزت کی جائے اور تم دنیا میں ہمیشہ کامیاب و کامران رہو تو رسو ل اللہ ﷺ کی نبوت کا اقرار کرو، اْ ن کی تعلیمات پر عمل کرواور اپنے ہر قول و فعل میں اللہ عز و جل اور محمد ﷺ کو گواہ بناؤ ، یہ مت بھولنا کہ تم اپنے ہر عمل کے جوابدہ ہو۔
محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب نے قوم کو راستہ تو بہت اچھا دکھایا ہے کہ ہر مسئلے کا حل ریاست مدینہ ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کو ئی اس پر عمل پیرا ہونے کو تیار ہی نہیں ہے ۔ لوگوں کو اب گناہ کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے ، معاشرہ گناہوں کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے ، کوئی یہ چاہتا ہی نہیں کہ پاکستان ایک سچے اسلامی نظام کے تحت چلے، کسی کو سدھرنے کی فکر ہی نہیں ہے۔ اب تو ایسے ہے جیسے ہم نے تسلیم کر لیا ہو کہ ہم بہت کمزور اور لاچار ہیں جو کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے۔ دنیا میں مسلمان ہونا جرم بن گیا ہے،سب اسلام دشمن مل کر مسلمانوں پر شب و روز ستم ڈھا رہے ہیں اور سب مسلمان بکھر کر ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیوں مسلمان ہی دنیا کی واحد مخلوق ہیں جن پر جتنے بھی ظلم کیے جائیں کم ہیں اور دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی یہ کیوں بے بس نظر آتے ہیں، کیوں یہ دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے نہیں ہوتے، کیوں کمزور دشمن ہماری طاقت سے نہیں ڈرتا ؟
اب آپ پوچھیں گے کونسی طاقت؟ ٹیکنالوجی اْن کے پاس ہے پیسہ اْن کے پاس ہے دنیا پر قبضہ اْن کا ہے تو ہمارے پاس کونسی طاقت ہے ؟ تو میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہمارے پاس وہی طاقت ہے جس کا فی الحال ہمارے پاس فقدان ہے اور وہ ہے ایمان کی طاقت جس دن ہمارے ایمان مضبوط ہو جائینگے تب سے ہی ہماری فتح کا دور شروع ہو جائے گا۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ سوشل میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا اور مقامی سروے میں بھی اگر آپ کسی پاکستانی مسلمان سے یہ پوچھینگے کہ اگر خدا نخواستہ کبھی مسلمانوں پر کوئی برا وقت آتا ہے تو آپ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کرینگے؟
تو بلا شبہ ہر انسان اس کا جواب ہاں میں دے گا ، ویسے بھی پاکستانیوں کو پوری دنیا کے مسلمانوں سے بے حد پیار ہوتا ہے اور ہر پاکستانی کی یہ خواہش ہوگی کے وہ دنیا میں بسنے والے مسلمان بہن بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہو۔
معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہم شاید خود کی مدد بھی کر پائیں یا نہ کر پائیں،کیونکہ ہم بٹ چکے ہیں، جہاں تقوی کی بنیاد پر کوئی افضل ہونا چاہئیے وہاں زبان درازی ، جھوٹ ، فریب اور شعبدہ بازی کی بنیادوں پر لوگوں کو فضیلت دی جاتی ہے فرقہ واریت کا بول بالا ہے چند روپوں کے لالچ میں کچھ نام نہاد لوگ مسلمانوں میں تفرقہ ڈلواتے ہیں اور اس طرح کم ہوتے ہوتے ہماری قوم مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بھی یہی گروہ بندی ہے ، اگر ہم آپس میں متحد ہو کر رہیں تو کسی کی کیا جرات کہ وہ ہم مسلمانوں کی طرف آنکھ اْٹھا کر بھی دیکھ لے۔
انسان کو تخلیق ہوئے زمانے بیت گئے ہیں اور اسلام کو اس دنیا میں آئے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں ، اِن چودہ سو سالوں میں ہمارے دشمنوں نے اپنی برائیاں چھپانے کا فن حاصل کر لیا ہے لیکن مسلمانوں کی اپنی اچھائیوں میں برائیاں ڈھونڈنے کی عادت نہیں گئی۔ بلکہ ہماری قوم کے کچھ لوگ ان برائیوں کو علی الا علان بیان کرنے کے پیسے بھی لیتے اور دیتے ہیں۔
شرم آتی ہے مجھ کو ایسی تبلیغ دیکھ کر جس میں کسی بھی انسان کی کردار کشی کی جائے ، کیا یہ انداز خطابت تھا رسول ِخدا ﷺ کا؟ کس نے تمہیں یہ حق دیا ہے کہ تم اپنی لمبی اور گستاخ زبانوں سے کسی ایسے انسان کی زندگی پر تبصرے کرو جو تم سے کہیں افضل ہو اور جناب رسول ﷺ سے اس کی نسبت بھی ہو۔ تم تو چند پیسوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ رہے ہو حالانکہ انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے اسلا م حاصل کیا ۔ میں مانتا ہوں کہ ہماری تاریخ بہت سیاہ ہے ، بہت سی ایسی باتیں ہیں جو نہیں ہونی چاہئے تھی، بہت سے ایسے کام ہیں جو نہیں ہونے چاہئے تھے لیکن ہو گئے۔ اب اگر یہ سوچا جائے کہ فلاں نے ایسا کیا تو کیوں کیا یا فلاں نے ایسا کہا تو کیوں کہا تو یہ باتیں فضول ہوں گی، بس جو حق سچ ہو اس کو تسلیم کرو اور جو باطل ہو اس سے انکار کرو۔ یہ دین انسانوں کے درمیان نازل ہوا ، اور جیسا کہ اللہ عز وجل نے فرمایا کہ ہم نے تم میں سے ہی جناب حضرت محمد ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا، فرشتے تو پہلے ہی سرکار دو عالم پر ایمان رکھتے ہیں اور جنات میں بھی جن کوخدا نے ہدائیت بخشی وہ نبیﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس جن انسانوں کے درمیان اللہ عزوجل نے اس متبرک دین کو نازل فرمایاان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی ہیں، اور ہم خود بھی تو اس میں شامل ہیں، کیا ہم امت محمدی نہیں ہیں، کیا ہماری اصلاح کے لئے ہی یہ دین اسلام نہیں ہے؟ کیا ہم میں اچھے برے لوگ نہیں ہیں؟ آج کون اس درجے پر فائز ہے کہ جو نعوذ بااللہ صحابہ کرام ، اہلبیت اطہار یا امہات المومنین کی برابری کر سکے، ہم سب برے ہی تو ہیں، کیوں ہم کمزور ہیں، کیوں ہم گھبرائے ہوئے ہیں، کیوں ہم بھٹکے ہوئے ہیں؟ ہمارے درمیان سب سے بڑی برائی یہی ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں میں صرف برائیاں ہی تلاش کرتے ہیں ، اور پھر ان برائیوں کی بناء پر ہم ایک دوسرے کو زلیل کرتے ہیں۔
اسلام کے آنے سے پہلے یہ دنیا کفر کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، بہت سے اصحابہ کرام ایسے تھے جنہوں نے کفر چھوڑ کر اسلام قبول کیاتھا اور اپنے جان و مال اور خاندانوں کی فکر نہ کرتے ہوئے اس کٹھن دور میں اسلام اور رسول خدا ﷺ کا ساتھ دیا تھا۔ اگر ہماری تاریخ میں کہیں تلخی ہے تو اس پر ہمیں شرمندہ ہونا چاہئے اور اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ ہم ان برائیوں کو پوری دنیا کے سامنے بیان کر کے خود کو ننگا کریں۔ اسلام دشمن طاقتیں اس وقت مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر بہت خوش ہو رہی ہیں ، ہمارا تماشہ بنایا ہوا ہے دنیا نے صرف اور صرف اس لئے کہ ہم نے خود ایک دوسرے کو تماشہ بنا دیا ہے ، خبردار کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اسلام پر انگلی اٹھائے ، اور بیشک اللہ عز وجل نے ہمارے لئے وہ دین نازل کیا جو سلامتی کا دین ہے ، سب سے افضل دین ہے اور ہم سب سے افضل امت ہیں۔
ہمارے اپنے اعمال و افعال کی وجہ سے اسلام کی ساکھ کو کیوں نقصان پہنچے؟ اگر ہم میں برائیاں ہیں تو اس سے ہمارے دین کی کیوں بدنامی ہو، دین تو سچا ہے، دین تو پاک ہے۔ کیوں ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام نہیں رہے اوربلا شبہ وہ رسی ایمان کی رسی ہے جو بندے کو اپنے رب سے جدا نہیں ہونے دیتی اور اسکی مضبوطی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم تفرقہ نہ پھیلائیں، فرقہ واریت سے دور رہیں، آپس میں باہمی اختلافات سے اجتناب کریں ۔ اگر ہم مل جل کر رہیں تو ہم ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی جماعت ہیں ، ہماری طاقت ہمارا باہمی اتفاق اور حسن سلوک ہے جبکہ ہماری کمزوری فرقہ واریت ہے۔ جو ہم سب کی برائیاں ہیں ان سے ہم سب کو کیوں توڑ رہے ہیں، کیوں اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی چلا رہے ہیں خدا کی قسم اسلام میں کہیں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ اپنی کمزوریوں کو علی الا علان بیان کریں ، کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ آپ دوسروں کی برائیوں کو بیان کریں تب آپکے ایمان کی تکمیل ہوگی۔ اگر یہ پہلو ہم ختم بھی کر دیں تو اس سے کسی کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمارے ایمان کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم متقی اور پرہیز گار رہیں، دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے ہر عمل کے لئے خود کو اللہ عزوجل کی عدالت میں جوابدہ سمجھیں۔ اگر فرقہ واریت چھوڑ کر ہم سب اپنے اپنے کردار کی اصلاح کی طرف توجہ دیں تو نا صرف یہ ہماری طاقت کا سبب بنے گا بلکہ اسلام کی طاقت کا سبب بھی ہو گا۔ دوسروں کی کردار کشی کرنے کی بجائے ہر انسان اپنی کردار سازی پر توجہ دے ، باہمی اختلافات ختم کئے جائیں اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے بھائی بھائی کا رشتہ ہو، جب ایسا ہو گا تو ہماری جماعت کو طاقت ملے گی ،ہمارے حوصلوں کو بلندی ملے گی، ہماری کمزوری ہماری جرات بن جائے گی اور ہمارا اتفاق ہماری کامیابی و کامرانی کا سبب ہو گا۔
امید کرتا ہوں کہ فرقہ واریت کے خلاف میری اس آواز کو آپ سراہیں گے اور اپنے اردگرد معاشرے میں موجود کسی بھی قسم کی فرقہ واریت کا حصہ نہیں بنیں گے ، اور ملک پاکستان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اس ناسور کے خلاف نہ صرف خود آواز اٹھائیں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں گے کہ وہ کسی بھی قسم کی فرقہ واریت کا حصہ نہ بنیں۔ اللہ عزوجل ملک پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔ ثم آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.