پر امن سپر پاور

جمعہ 1 جنوری 2021

Shafique Abbas Naqvi

شفیق عباس نقوی

السلام علیکم معزز قارئین اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کی بنیاد اور جس کا تصور صرف اور صرف امن پر مبنی ہے اور جس کے معنی ہی سلامتی کے ہیں۔ ایک ایسا مذہب جس نے انسانوں کو جینے کا ڈھنگ سکھایا اور تمام انسانوں کے لئے بہتر ین حقوق متعین کئے تمام لوگ جانتے ہیں کہ کس طرح اسلام کے آنے سے قبل عورتوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور نو مولود بچیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا، ملازموں پر کوڑے برسائے جاتے تھے اور با اثر لوگوں کو ہر قسم کی قانونی چھوٹ حاصل تھی، سود خوری، بدکاری اور مہ کشی کو معاشرے کی زینت سمجھا جاتا تھاجبکہ نیک و کار لوگوں کو اذیت کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔


اْس کٹھن دور میں اللہ عز وجل نے انسانوں کو ایک ایسے دین کی روشنی سے سیراب کیا جس نے جاہلیت پر مبنی تمام قوانین کا خاتمہ کیا اور انسانوں کو ایک ایسے نظام زندگی سے روشناس کروایا جس میں ہر انسان کو اس کے بنیادی حقوق کا مالک ٹھہرایا گیا اور یوں دنیا زمانہ جاہلیت سے نکل کر اسلام کے دائرے میں آ گئی ، امن اور سلامتی پر قائم اس مذہب کو دنیا کے تمام مذاہب پر برتری حاصل ہو گئی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔

(جاری ہے)

چونکہ اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لئے بہت سے انسانوں نے اسلام کا خیر مقدم کیا ، اس دین کو پسند کیا اور مسلمان بن کر اسلام کی خدمت کی۔
ما سوائے اسلام کے دنیا میں کو ئی بھی ایسا مذہب موجود نہیں ہے جو اتنا فصیح و بلیغ ہو اور جس کی تعلیمات اس قدر صحیح ہوں کہ قیامت تک کوئی بھی انسان اس کی تعلیمات کو چیلنج کر سکتا ہو ۔
تمام مسلمان حضرت محمد ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں اور ان کی ذات اقدس پر ایمان رکھتے ہیں کوئی بھی انسان اس وقت تک مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ پیارے آقا سرکار دو عالم ﷺ کی ذات اقدس پر ایمان نہ لے آئے ، جناب رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کا نام ہی اسلام ہے ان کا ہر عمل ہمارے دین کی بنیاد ہے ، ان کی ہر بات ہمارے مذہب کا حسن ہے۔

انہوں نے عملی طور پر دنیا پر واضح کیا کے کیسے امن پر قائم رہتے ہوئے ظلم کا خاتمہ کیا جاتا ہے ، ان کے ہر عمل نے ہم پر اسلام کو واضح کیا اور بیشک ان کی حیات طیبہ ہی تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
بیشک اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے بہترین مذہب ہے ، انسانوں کی بھلائی صرف اور صرف اسلام میں ہے کیونکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو امن کا پیغام دیتا ہے اور انسانوں پر کسی بھی ظلم اور جبر کی اجازت نہیں دیتا جبکہ اسلام کے مقابلے میں دنیا کا کوئی بھی مذہب انسانوں کو اتنا تحفظ نہیں دیتا۔

پوری دنیا پر واضح ہے کہ کس طرح دنیا کے کچھ نام نہاد ممالک مسلمانوں کی نسل کشی کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں مثال کے طور پر مسلمانوں کی نسل کشی اسرائیلیوں کی حکومتی پالیسی کا حصہ ہے اور اسی پالیسی کے تحت وہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں ،بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں مسلمانوں پر شب و روز ظلم ڈھائے جاتے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے اور آج کل تو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ برادری کے لوگوں کے لئے بھی بھارت کو جہنم بنا دیا گیا ہے، کس طرح میانمارجیسے ممالک میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی ہے اور پوری دنیا خاموش رہتی ہے۔


چند دہائیوں سے امریکہ جو خود کو سپر پاور سمجھتا ہے وہ بھی مسلمانوں پر ایک خاص نظرئیے کے تحت ظلم کر رہا ہے اور مختلف سازشوں کے ذریعے سے اس نے اسلامی دنیا کے چند بڑے ممالک کو اپنے تسلط میں کرنے کی کوشش کی ہے جس میں عراق، شام اور افغانستان قابل ذکر ہیں ۔ لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آج تک کبھی ایسا ممکن ہوا ہے کہ کسی انسان کو قتل کر کے اس کی آواز کو دبایا جا سکے حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح سے کٹے ہوئے سر بھی حق اور سچ کی گواہی دیتے ہیں اور نوک نیزہ پر کلام الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں ، کس طرح حق ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور باطل جاہلیت کی موت مر جاتا ہے۔


جس طرح میں نے آپ کو بتایا کہ بہت سے ممالک میں مسلمانوں کی نسل کشی کو سرکاری سطح پر جائز قرار دیا جاتا ہے اور اس گھناؤنے عمل کو سر انجام دینے میں امریکہ جیسی سپر پاور بھی پیش پیش ہے لیکن کوئی بھی اتنی جرات نہیں کرتا کہ ان کے خلاف آواز اٹھا سکے یا ان کو روک سکے، وہ ظلم کرتے ہیں اور کرتے ہی جاتے ہیں مگر کیوں؟ کیونکہ انہوں نے ہماری طاقت کو ہماری کمزوری بنا دیا ہے اور وہ طاقت ہے جہاد کی طاقت۔


جی ہاں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کرنا اہل یہود کی پالیسی ہے اس طرح ظالموں کے خلاف جہاد کرنامذہب اسلام کی پالیسی ہے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں ان سے جہاد کریں ۔ چونکہ فقط مذہب اسلام ہی سلامتی کا دین ہے اس لئے شر پسند عناصر نے مسلمانوں کے خاتمے کو اپنی حکومتی پالیسی بنا لیا تاکہ پوری طرح سے اس دنیا کو ظلم اور جبر کی دلدل میں دھکیل دیا جائے ۔


یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تم کرو تو حکومتی پالیسی اور ہم کریں تو دہشت گردی حالانکہ سب پر واضح ہے کہ کون دنیا کی سلامتی چاہتاہے اور کون اس کو تباہ و برباد کرنا چاہتاہے اسی لئے کفر نے جہاد کو دہشت گردی کا نام دے دیا اور اسی دہشت گردی کی آڑ میں معصوم مسلمانوں کو قتل کرنے لگے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس صرف جہاد ہی ایسی طاقت ہے جس کے تحت وہ ظلم و جبر کا خاتمہ کر سکتے ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی کمزوریوں اور عدم اتفاق کی بدولت آج مسلمانوں کے لئے جہاد کرنا گناہ ہو گیا ہے، ہم سے ہماری طاقت کو چھین لیا گیا ہے وہ جو ہمارا مذہبی فریضہ تھا اس کو ہمارے ماتھے کی کلنک بنا دیا گیا ہے، اب دنیا میں جہاں بھی کوئی مسلمان جہاد کے لئے کھڑا ہوتا ہے اس کو دہشتگرد نامزد کر دیا جاتا ہے اور پوری دنیا ہم سے نفرت کرنے لگتی ہے لیکن جب مسلمانوں پر سر عام ظلم کیا جاتا ہے اس وقت کسی کو دہشتگرد نہیں کہا جاتا بلکہ مسلمانوں کے قتل عام پر درندہ صفت لوگوں کو امن کے ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے ۔


قارئین عظام ہونا تو یہ چاہئے کہ جو سب سے امن پسند ہو، جو انسانیت کی قدر کرتا ہو اور جو انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرے اسی کو سپر پاور سمجھا جائے یا مانا جائے مگر دنیا اب ایک عجیب ڈگر پر چل رہی ہے جو سب سے زیادہ ظالم ہے، جس کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہے، جس کے پاس سب سے زیادہ مال دنیا ہے اور جو انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہیں ان کو سپر پاور کہا جاتا ہے اور بہت سے انسان اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم کو خوش آمدید بھی کہتے ہیں اور ظالموں کا ساتھ بھی دیتے ہیں ۔


جیسا کہ پوری دنیا میں اس وقت ون ورلڈ آرڈر کی باتیں ہو رہی ہیں اور چرچا کیا جا رہا ہے کہ کس طرح انسانوں کو ایک نئے نظام کے تحت کنٹرول کیا جائے توکیایہ ضروری نہیں ہے کہ تمام انسان مل کر پہلے اس بات کا فیصلہ کریں کہ آخر کونسا ایسا نظام ہے جس کے تحت تمام انسانوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے یا کون سا ایسا نظام ہے جس کے تحت تمام انسان پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں ۔


 یہ تو بہت قدیم اور جاہلیت پر مبنی تھیوری ہے کہ کسی انسان کو ڈرا دھمکا کر، مال ودولت کا لالچ دے کر یا جان سے جانے کی دھمکی دے کر اس سے کسی نظریے کی ظاہری تائید حاصل کی جا سکے ۔ دنیا اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہی ہے لیکن انسان ابھی بھی یہی سوچ رہا ہے کہ قابیل کی سر بلندی کے لئے ہابیل کا قتل ضروری ہے ، کیا انسان کو یہ نظر نہیں آتا کے آج تک اگر کسی بھی انسان کو سربلندی نصیب ہوئی ہے تو وہ صرف امن قائم کرنے سے ہوئی ہے اور جو بھی ظالم ہے اس کو دنیا میں سوائے لعنت عظیم کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا ۔


یہ دنیا کون سی حکومت کی بات کرتی ہے اور کونسے نظام کی بات کرتی ہے؟ کیا ایسا نظام انسانوں کے لئے بہتر ہے جس میں طاقتور کو کمزور پر برتری حاصل ہو، ظالم کو مظلوم پر برتری ہو اور برائی کو اچھائی پر برتری حاصل ہو؟ بیشک وہ نظام صرف اور صرف اسلامی نظام ہے جس میں تمام انسانوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں جس میں کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی سبقت حاصل نہیں ہے یہاں برتری کا صرف ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے تقویٰ، جو جتنا پرہیزگار ہوگا وہ اتنا ہی بزرگ و برتر مانا جائے گا۔


ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے عملی طور پر دنیا کو دکھا دیا کہ کس طرح سے صرف حسن اخلاق کی بدولت ہی انسانوں کے دلوں پر حکومت کی جا سکتی ہے جس کی گواہی غیر مسلم بھی دیتے ہیں ، اور انسانوں کے دل و دماغ پر حکومت کرنے کا صرف یہی ایک ذریعہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے ، آج کل کے جدید دور میں تو جانوروں پر بھی جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے تو انسانوں پر جبر کر کے کیسے ان کو اپنے ماتحت کیا جا سکتا ہے، کیا یہ جہالت کی انتہا نہیں ہے کہ انسان آج کل کے جدید دور میں بھی فرعونی سوچ پر گامزن ہے، آخر کب تک انسان اس روش پر قائم رہے گا کے مالدار کے سامنے ہی جھکنا ہے، طاقتور کو ہی سلام کرنا ہے اور ظالم سے ہی ڈرنا ہے؟
انسان کو ایسے نظام کے تحت خود کو بدلنا ہو گا جس میں سب کے لئے سلامتی ہو اورجس میں کسی بھی انسان کی حق تلفی نہ ہو ۔

ایک لمحے کے لئے تصور کر یں کہ وہ نظام کتنا خوبصورت ہو گا جس میں تمام انسان ایک دوسرے کی جان کے رکھوالے ہوں گے ، ایک ایسا نظام جس میں نیکی کا بول بالا ہوگا، ایک ایسا نظام جس میں ظلم و جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی، ایک ایسا نظام جس میں ہر انسان اہم ہو گا، ایک ایسا نظام جہاں اچھائی کو برائی پر سبقت حاصل ہو گی اور ایک ایسا نظام جہاں سپر پاور وہ ہوگا جو انسانوں میں سب سے زیادہ پر امن ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :