شہر کراچی کا نوحہ

بدھ 26 اگست 2020

Shafqat Rasheed

شفقت رشید

پورے ملک سے سوشل میڈیا پر کراچی ڈوبنے ، جگہ جگہ پانی کھڑے ہونے پر کئی لوگوں  نے مذاق اڑایا کسی نے دکھ کا اظہار نہیں کیا ۔
ہمارے ایک دوست جو ایبٹ آباد میں رہتے ہیں ایک پکچر لگائی جس میں ڈوبتے کراچی پر مذاق تھا ،
 ان کو انباکس میں، میں نے لکھا "بھیا جس دن آپ کے علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا ہم کراچی والے ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے تھے اپنے دل اور جیبیں کھول دی تھیں ، اور آج آپ ہماری مصیبت پر مذاق اڑا رہے ہو"
یہ ہمارے ملک میں عمومی مزاج ہے ،
 کراچی کا کچرا ہو ،
 کراچی میں بہتے گٹر ہوں یا
 کراچی میں بارش سے ڈوبے علاقے ہوں ،
ہم سے ہمدردی نہیں ہم سے مذاق کیا جاتا ہے ۔


کراچی نے آج تک کبھی کسی سے کوئی امداد نہیں لی ،
 کبھی کسی سے کوئی مدد نہیں لی ،
ہماری مساجد میں ملک کے گمنام کسی گاؤں میں گمنام کسی مدرسہ کا نمائندہ کھڑا ہوتا ہے
 اور اعانت کی درخواست کرتا ہے ، نماز ختم ہونے کے بعد اس کی جھولی میں ہزاروں روپے ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)


کینسر ہسپتال ، گردے کا ہسپتال یا کوئی بھی فلاحی ادارہ بنتا کسی اور صوبے میں ہے
 مگر فنڈنگ کراچی میں بھی ہوتی ہے اور کراچی والے دیتے بھی ہیں ۔


اس شہر کی مثال اس بڑے بھائی کی سی ہے جو پوری زندگی قربان کرکے اپنے بھائیوں  کو پڑھا لکھا کر کسی مقام پر پہنچاتا ہے
 اور خود تنہائی کا شکار ہوتا ہے
یہ بڑا بدقسمت شہر ہے۔
مندرجہ بالا سطور کراچی سے اک پیاری دوست نے ارسال کی۔۔
یہ سچ ہے کہ کراچی پورے ملک کو آکسیجن فراہم کرنے والا شہر ہے۔۔۔
اگر کراچی کو ڈوبنے دیا گیا تو پورا ملک ڈوبے گا۔

۔۔
کراچی کے مسائل پر یا حالیہ طوفانی بارشوں اور کھڑے پانی سے متعلق ہم جب بھی بات کرتے ہیں بحث اس طرف چل نکلتی ہے کہ کس کے پاس اختیارات ہیں اور کس کے پاس نہیں؟
کون کراچی کو بنا رہا ہے کون بگاڑ رہا ہے۔۔۔
لیکن یہ پہلو قطعی نظر انداز کیا جاتا ہے کہ ہر مشکل میں دوسروں کو کندھا دینے والے شہری کس حال میں ہیں ۔۔انہیں کن مسائل کا سامنا ہے۔۔
کراچی ہر طرح کے مالی ،اخلاقی  تعاون کا مستحق و منتظر ہے۔۔۔
ملک بچانا ہے تو کراچی کو بچانا ہو گا۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :