حلقہ شرقی باغ ۔۔تقابلی جائزہ

منگل 1 ستمبر 2020

Shafqat Rasheed

شفقت رشید

1985 میں پیپلز پارٹی کے آزاد کشمیر میں قیام سے دو جماعتی نظام کی ابتدا ہوئی اور پیپلز پارٹی بڑی تیزی سے پھیلی پھولی اسکی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کو عروج تھا اور آزاد کشمیر کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس ہی پاکستان میں بننے یا اقتدار میں آنے والی جماعت کا نعم البدل ہوا کرتی تھی۔۔۔
پیپلز پارٹی آئی تو مسلم کانفرنس سے مقابلہ ٹھہرا اسی برابری کے مقابلے نے حلقہ شرقی باغ میں دو مضبوط اور ہم پلہ امیدواروں سردار میر اکبر خان صاحب مسلم کانفرنس اور سردار قمر الزماں صاحب پیپلز پارٹی سے حکومتوں کے اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں ان دونوں امیدواروں میں ہی بال گھومتی رہی۔

۔۔
پاکستان میں مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد دو اور جماعتوں نے جنم لیا۔

(جاری ہے)

مسلم کانفرنس سے مسلم لیگ ن آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر صاحب کی قیادت میں اور پیپلز پارٹی سے پیپلز مسلم لیگ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی قیادت میں۔۔
یوں قیادت کے اعتبار سے چار اور ووٹ بنک کے اعتبار سے دو پارٹیوں میں مقابلہ رہا یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی۔۔۔


گزشتہ الیکشن میں سردار میر اکبر صاحب کو حلقہ شرقی سے کامیابی ہوئی اسکی دو اہم وجوہات تھیں۔
1: سردار قمر الزماں صاحب کا خود حلقہ چھوڑنا اور سردار ضیاء القمر کو امیدوار نامزد کرنا۔
2: پاکستان میں ن لیگ کا مضبوط ہونا اور پیپلز پارٹی کا سکڑ کر سندھ تک محدود ہو جانا۔۔۔
یاد رہے دو جماعتی نظام کی موجودگی میں یہ نظریہ بھی مضبوط رہا کہ جسکی مرکز میں حکومت اسی کی آزاد کشمیر میں بھی حکومت ہو گی۔

اس نظریے کو تقویت پاکستان سے حاصل کی جانے والی مہاجرین کی نشستیں رہی ہیں۔۔۔
اس مرتبہ کی طرح ہر دفعہ الیکشن پر کچھ نئے چہرے بھی دیکھنے کو ملتے رہے ہیں لیکن جلد ہی جوش و ولولہ دم توڑ جاتا۔۔۔۔
پی ٹی آئی کے آنے سے کوئی بڑی تبدیلی تو نہیں رونما ہوئی کیونکہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی جماعت پیپلز مسلم لیگ کو ہی پی ٹی آئی کا نام دیا گیا۔

۔۔تاہم حلقہ شرقی باغ میں پی ٹی آئی کے مضبوط امیدوار کے طور پر سردار طاہر اکبر خان صاحب کو دیکھا جا رہا ہے۔۔۔
 سردار طاہر اکبر صاحب بذات خود تو ایک تگڑے،خوش مزاج ،اور عوامی طبیعت کے مالک شخصیت ہیں لیکن سیٹ نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسکی تین وجوہات ہیں
1: بدنام قیادت کا میسر ہونا۔۔۔یعنی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ایک بڑی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست میں اس اعتبار سے بھی بدنام ہیں کہ وہ کسی ایک جماعت یا نظریہ کے حامل نہیں رہے جماعتیں بنانا توڑنا اور بدلنا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے اسلیے ووٹر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔


2: پارٹی میں ٹکٹ کی امیدوار شخصیات کی بہتات۔۔
یہ لازمی امر ہے کہ کئی میں سے ایک امیدوار یعنی سردار طاہر اکبر صاحب کو ٹکٹ ملے گا اور باقی امیدوار ظاہر ہے اپنے ووٹرز کے ہمراہ زاتی بنیادوں پر فیصلہ کریں گے۔۔
3: مضبوط ٹیم کا فقدان۔ازاد کشمیر میں ووٹ تین بنادوں پر ملتا ہے۔۔پارٹی کا ووٹ،شخصی ووٹ اور مقامی جوڑ توڑ کرنے والے کارکنوں کا ووٹ۔

۔۔
اگر مندرجہ بالا تین چیزوں کو دیکھا جائے تو سردار طاہر اکبر صاحب کے پاس مضبوط ٹیم کا فقدان ہے ۔۔۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کو دیکھا جائے تو سردار ضیاء القمر صاحب کی بھی یہ صورت حال ہے کہ بذات خود وہ ایک عوامی نمائندہ کے طور پر پسند کیے جاتے ہیں ہیں دیگر عوامل یعنی پارٹی کی اقتدار میں آنے کی پوزیشن۔۔ پاکستان سے کسی ممکنہ تعاون کی عدم دستیابی۔

اگرچیکہ سردار طاہر اکبر صاحب کے مقابلے میں سردار ضیاء القمر صاحب کی نمائندہ ٹیم مظبوط ہے۔ لیکن سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں وہ اسوقت تک نہیں ہیں۔
مسلم کانفرنس کے امیدوار سردار جاوید عباسی باغ کی اک قد آور شخصیت سردار خلیل خان عباسی کے صاحب زادے ہیں۔۔۔بڑی خوش کن شخصیت کے مالک،ملنسار اور نوجوان قیادت۔ لیکن مسلم کانفرنس کے ٹوٹ کر مسلم لیگ ن بن جانے کے بعد مسلم کانفرنس دوبارہ مظبوطی سے اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی اگر چہ سردار عتیق احمد خان صاحب آج بھی آزاد کشمیر سیاست کے ایک اہم ستون اور قائد حزب اختلاف ہیں لیکن پاکستان سے کسی مظبوط سیاسی جماعت کی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار میں آنے کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں اور یقینی بات ہے کہ یہ تاثر سردار جاوید عباسی صاحب کو برائے راست متاثر کرے گا۔

۔۔
اگر دیگر امیدواروں کا تزکرہ کیا جائے تو سردار مشتاق نئیر،شیخ مقصود صاحب،سردار بشارت بادشاہ اور سردار خلیل خان صاحب اور آزاد امیدوار میں سردار مراد انور، اور دیگر کئی نام قابل ذکر ہیں۔۔
ان میں سے سردار مشتاق نئیر صاحب اور شیخ مقصود صاحب گزشتہ الیکشن میں بھی زور آزمائی کر چکے ہیں۔۔
لیکن کسی بھی شخصیت کے پاس کوئی ایسا مستند جواز نہیں ملتا کہ وہ تینوں بڑی جماعتوں کو پچھاڑ کر سیٹ نکال سکتا۔

۔۔
ایسی صورت میں سردار میر اکبر خان صاحب اور مسلم لیگ ن ہی کے کوٹ میں یہ بال گرتی نظر آ رہی ہے۔۔۔
سردار میر اکبر خان صاحب کو دیگر امیدواروں کے مقابلے میں دیگر عوامل سپورٹ کرتے ہیں مثلاً مقامی کارکنوں کی ایک انتہائی مظبوط ٹیم جو ہر وقت الیکشن پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔
مستند قیادت۔ ن لیگ کے راجہ فاروق حیدر صاحب تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان حکومت سے معاملہ فہمی میں ہر دل عزیز اور موثر شخصیت ثابت ہوئے ہیں جس کا فائدہ حلقہ شرقی میں سردار میر اکبر خان صاحب کو بھی ہو گا۔


 اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حکومتی پارٹی ووٹر کو متاثر کرتی ہے یہ سپورٹ بھی سردار میر اکبر خان صاحب کو ہی حاصل ہے۔۔۔
جیساکہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں زکر کیا ہے کہ اس سے قبل یہ نظریہ گیم چینجر ثابت ہوتا رہا ہے کہ جسکی پاکستان میں حکومت وہی پارٹی آزاد کشمیر میں حکومت بنائے گی اب کارگر ثابت نہیں ہو گا۔۔اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔

۔۔
1: پاکستان سے مہاجرین کے نام پر ملنے والی نشستیں بھی تینوں بڑی جماعتوں میں تقسیم ہیں اور زور آزمائی کی بنیاد پر ہی حاصل کی جا سکیں گی۔
2: پی ٹی آئی کی حکومت اپنے ابتدائی دور میں ہی انتہائی ناقض کارکردگی کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے کہ آزاد کشمیر کے ووٹر کو متاثر کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے۔۔
3: آزاد کشمیر میں ن لیگ کے اس دور حکومت میں کئی اختیارات جو پہلے مرکز استعمال کرتا تھا اب آزاد کشمیر اسمبلی استعمال کرے گی یوں بھی مداخلت پر اثر پڑے گا۔


4: آزادی کشمیر کی تحریک میں جو تبدیلیاں 5اگست 2019 کے انڈیا کے ریاست کے خصوصی اختیارات کے خاتمے کے بعد رونما ہوئی اور جس طرح راجہ فاروق حیدر صاحب نے پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ یہ بھی آزاد کشمیر کے الیکشن میں پاکستان کی مداخلت کو متاثر کرے گا۔۔۔
مندرجہ بالا  جائزہ کے مطابق تو حلقہ شرقی باغ کی سیٹ پر تو میر اکبر خان صاحب ہی براجمان نظر آتے ہیں اگر کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہوئی تو۔۔۔
اور اس بڑی تبدیلی کے لیے سارے امیدواروں کے پاس وقت بھی موجود ہے اور میدان بھی۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :