خلع کی درخواست

اتوار 30 اگست 2020

Shafqat Rasheed

شفقت رشید

لاہور کی رہائشی خاتون کنزہ نے لاہور فیملی کورٹ میں خلع کی درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا وہ شوہر سے خلع لینا چاہتی ہیں لیکن جو وجہ بیان کی وہ نہ صرف دلچسپ بلکے حیران کن بھی ہے۔
کنزہ نے موقف اختیار کیا کہ میں روزانہ 1500 سو روپے کماتی ہوں لیکن شوہر مجھے کام کرنے سے روکتا ہے۔۔۔
کنزہ نے بتایا کہ وہ لائیو اسٹریمنگ اپلیکیشن بیگو پر کام کرتی ہیں جس سے شوہر منع کرتا ہے۔

۔۔
عدالت نے شوہر کو طلب کیا اور منع کرنے کی وجہ پوچھی تو جواب بھی حیران کن تھا۔۔
شوہر کا کہنا تھا کہ وہ بیگو پر غیر محرم مردوں سے لائیو وڈیو چیٹ کرتی ہے اور فاحش باتیں کرتی ہے۔۔۔
سوشل میڈیا پر کام کرنے اور پیسے کمانے کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کا منفرد کیس تھا۔

(جاری ہے)

۔۔
مزید بات کرنے سے پہلے میں قارئین کو لائیو اسٹریمنگ اپلیکیشن بیگو کے بارے میں بتاتا چلوں کہ۔

۔
سنگاپور نے 2014 میں ایک ایپ بیگو لائیو کے نام سے متعارف کروائی۔۔
بہت جلد یہ ایپ دنیا بھر میں مقبول ہو گئی۔۔۔
اس ایپ کا کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایپ انتظامیہ خواتین بلخصوص خوبصورت اور جوان لڑکیوں کو تنخواہ پر ملازم رکھتی ہے۔۔اور تنخواہ عموماً اچھی ہوتی ہے۔۔براڈ کاسٹنگ کے نام پر ان لڑکیوں سے لائیو وڈیو چیٹ کرواتی ہے ۔۔

اور لائیو وڈیو چیٹ میں عموماً سوشل میڈیا سے جڑے ٹین ایجرز ہوتے ہیں جن کے مطالبے پر براڈکاسٹر یا لائیو چیٹ کرنے والی اس لڑکی کو وہ سب کرنا پڑتا ہے جو ویورز چاہتے ہیں۔۔
اور جب تک چیٹ میں سیکس یا فحاش مواد نہیں ہو گا وڈیو چیٹ لمبی نہیں چل سکتی۔۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایپ انتظامیہ آخر ایسا کیوں کرتی ہے اسے کیا فایدہ ہوتا ہے۔

۔۔
تو جواب سیدھا سا ہے کہ اس پر آنے کے لیے یاتو ویورز کو ایپ خریدنی پڑتی ہے یا چیٹ کا حصہ بننے کے لیے بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔۔۔۔
اگرچیکہ مغربی ممالک میں اس ایپ کو بڑی پذیرائی اور کام کرنے کا ماحول ملا لیکن ساتھ ہی مشرق وسطی انڈیا اور پاکستان میں بیگو ایپ کو مشکلات کا سامنا رہا۔۔۔۔
پاکستان میں ناصرف بیگو بلکے پب جی اور ٹک ٹاک کو بھی فحاش مواد کی وجہ سے پابند کیا گیا بعد ازاں عدالت کے حکم پر پھر سے اجازت دی گئی۔

۔۔۔
  اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ایسی کسی ایپ کو چلانے کی اجازت دینے کی گنجائش ہے تو اس پر دو مکتبہ فکر ہیں ایک کا موقف ہے کہ اسطرح کی ایپ سے کئی لوگوں کو روزگار فراہم ہو رہا ہے اسے چلنا چاہیے۔۔۔
جبکہ دوسرے مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ یہ یا اسطرح کی دیگر ایپس برائے راست ہمارے مزہبی معاملات ہماری روایات اور نوجوان نسل کی تباہی کا موجب بنتی ہے۔۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مندرجہ بالا کیس ایک طرف تو ایک فیملی کا زاتی نوعیت کا کیس ہے لیکن دوسری طرف اس ایپ سے متعلق بھی منفرد ہے ۔اب عدالت کا اس پر کیا فیصلہ آتا ہے۔۔۔لیکن سوشل  اس کیس پر دلچسپ تبصرے کر رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :