بزدار حکومت،سونے کے انڈے دینے والی چڑیا

جمعہ 28 اگست 2020

Shafqat Rasheed

شفقت رشید

اگر پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد نااہلی اور نالائقی کا اگر زکر کیا جائے تو ایک لمبی فہرست مرتب ہو گی لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جہاں بزدار حکومت عوام پر اب اک بوجھ سمجھی جانے لگی ہے۔ وہیں دوسری طرف افسر شاہی کے لیے بزدار حکومت کسی سونے کے انڈے دینے والی چڑیا سے کم نہیں ہے۔۔
پہلے تو افسران کو کوئی بڑا پروجیکٹ ہی نہیں ملتا جو درد سر بنے۔

۔اور غلطی سے اگر ایسا ہو بھی تو کوئی افسر پروجیکٹ کلیئر ہی نہیں کرتا کیونکہ انہیں خدمت کرنے کی خوشی سے زیادہ اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ اگر پروجیکٹ کامیاب رہا تو کریڈٹ حکومت لے گی اور اگر خدا ناخواستہ پروجیکٹ ناکام ہو گیا تو نیب انہیں بغیر کسی انکوائری کے اٹھا لے گا۔۔۔۔
یہ سارے وہ معاملات تو زیر بحث رہتے ہی ہیں لیکن ایک شعبہ ہے پنجاب فورڈ اتھارٹی۔

(جاری ہے)

جسکی پنجاب حکومت کے احتساب اور پکڑ دھکڑ کے نظریہ کے ساتھ لاٹری لگی ہوئی ہے۔۔۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں چھوٹی دکانوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور جرمانے کیے جاتے ہیں۔۔۔
یہ ایک خوش آئند بات اگر پرائس کنٹرول اور کوالٹی کنٹرول ہو رہی ہو تو۔۔۔
لیکن یہ بات نہ صرف مختلف ہے بلکے دلچسپ بھی ہے۔۔۔
ڈی سی آفس کو ہر ماہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کی سرکاری لسٹ جاری کرنی ہوتی ہے جو تمام دکانداروں کو مفت فراہم کی جانی ہوتی ہے یا اس کاپی کے ایک یا دو روپے چارج ہوتے ہیں لیکن وہی لسٹ 25سے 35 روپے تک دکاندار کو دی جاتی ہے اور ہر علاقے میں ہر دفعہ پرائس لسٹ دینے والا شخص مختلف ہوتا ہے۔

۔۔۔
ان لسٹوں کی مد میں وصول کیا جانے والے پیسے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور یہ لسٹ تقسیم کرنے والے سے لے کر ڈسی آفس تک بانٹا جاتا ہے اور سرکاری خزانے کو ایک پسے کا فائدہ نہیں۔۔۔۔۔
پھر مجسٹریٹ اور فوڈ انسپکٹر کے نام پر کچھ لوگ مارکیٹ میں آتے ہیں اور جرمانے کرنے شروع کرتے ہیں۔۔وہ جرمانے کر کے آگے گزرتے ہیں تو کچھ دیر بعد دکاندار کے پاس ایک شخص آتا ہے جو اسے قائل کرتا ہے کہ آپ عدالت میں جائیں گے،شاپ بند کریں گے،وکیل کی فیس بھریں گے،اور 3000 یا 5000 جرمانے کے لیے آپ کو پندرہ ہزار خرچ کرنے ہونگے اگر آپ ابھی موقعہ پر معاملات ختم کرنا چاہتے ہو تو میں آپ کو 2 ہزار،یا پچیس سو میں معاملہ طے کر لیتا ہوں۔

۔۔
اور یوں موقعہ پر پیسے لیے جاتے ہیں جن کی کوئی رسید نہیں ہوتی۔۔۔۔اور وہ سارے پیسے یقیناً سرکاری خزانے میں نہیں جاتے۔۔۔۔۔
ایک اور بات شئیر کرتا چلوں کہ اکثر دکانداروں کو اجکل چینی پر جرمانے ہوتے ہیں۔۔۔
چینی کا سرکاری ریٹ 70سے75روپے فی کلو ہے مگر ایک جھوٹے دکاندار کو ہول سیلرز سے چینی 92 سے 93 روپے فی کلو ملتی ہے۔۔اب ظاہر سی بات ہے کے وہ 95یا 100 ہی سیل کرے گا۔

۔جب وہ ہول سیلرز کا بل دکھاتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ آپ مجھے جرمانہ ضرور کریں لیکن میرے ساتھ چلیں اور ہول سیلرز کے پاس سے ہمیں ستر روپے کے حساب سے خرید کر بتائیں۔۔یا یہ جرمانہ اسکو کریں۔۔۔لیکن فوڈ اتھارٹی کے ارکان نہ ہول سیلرز کے بل کو قبول کرتے ہیں نہ انکے پاس جاتے ہیں ۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ کیوں؟؟؟
تو اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ وہ اگر ہول سیلرز کے پاس جاتے ہیں ریٹ لیتے یا جرمانہ کی بات کرتے ہیں تو ہول سیلرز آگے سے کسی شوگر مل کا بل دکھاتا ہے اور ساتھ مل کے مالک یا منیجر کا نمبر ملا کر پکڑا دیتا ہے اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کے لوگ جانتے ہیں کہ وہ سب طاقت ور لوگ حکومت کی نشستوں پر بیٹھے ہیں تو انکو واپس جانا پڑتا ہے۔

۔۔اور وہ سارا بوجھ چھوٹے دکاندار پر ڈالا جاتا ہے جو یقیناً عام صارف پر جاتا ہے۔۔۔۔
لیکن اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کے فورڈ اتھارٹی کے نام پر جعلی لوگ،اپنی دیہاڑی لگاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔۔۔۔
بعض جگہوں پر پرائس لسٹ بھی جعلی چھوٹے دکاندار کو فروخت کی جاتی ہے۔۔۔
پنجاب فورڈ اتھارٹی بھی اگر جرمانے کرتی ہے تو کوئی مستند رسید نہیں دی جاتی بلکے کسی فرد کو ملنے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

۔۔
 اب یہاں یہ سوال بھی ہے کہ دکاندار کو چلان بھرنے کے لیے عدالت جانا چاہیے؟؟؟
لیکن ہر شخص یہ جانتا ہے کہ اسے تین ہزار کا چلان مجسٹریٹ تک پہنچنے میں پندرہ ہزار کا بن جاتا ہے۔۔۔اس لیے اسی وقت پیسے دیے جاتے ہیں۔۔۔
اور یہ روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کی کرپشن سامنے سامنے ہو رہی۔۔۔اور یہ سب بزدار حکومت کے ناک تلے لاہور سے شروع ہوتا ہے۔۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس کی نالائقی اور نہ سمجھی کے عوض عوام کر روزانہ کروڑوں کی پھکی لگتی ہے۔۔۔۔
کرپشن ختم کرنے کا نعرہ لگانے والے ہی کرپشن کے بڑھنے کی وجہ بن رہے ہیں
 اب اگر یہ کہا جائے کہ بزدار حکومت کچھ محکموں کے لیے سونے کے انڈے دینے والی چڑیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :