پیمرا کو نوٹس اور راتوں رات حکم

پیر 21 ستمبر 2020

Shafqat Rasheed

شفقت رشید

پیمرا کو نوٹس جاری کیا گیا کہ ایک عدالت سے مفرور قرار دیے جانے والے شخص کی تقریر کسی صورت نشر نہ کی جائے۔۔
لیکن پھر راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ خود وزیراعظم کو ایک غیر قانونی حکم جاری کرنا پڑا کہ نواز شریف کی تقریر نشر کی جائے؟؟؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں فلیش بیک کرنا پڑے گا۔۔
گیارہ ماہ قبل جب عدالت نے نواز شریف کو علاج کے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تو حکومت کو اپنا بیانیہ ڈوبتا نظر آیا تو حکومت نے ایک شرط رکھی کہ نواز شریف ساتھ ارب روپے بطور زر ضمانت جمع کروائیں اور باہر جائیں لیکن ن لیگ نے اسے شرط کو رد کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ جب عدالت میں شخصی ضمانت دی جا چکی ہے تو پھر حکومت کو کیوں ضمانت دی جائے۔

۔۔
جب نیازی حکومت کو لگا کے گیم ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی تو کریڈٹ لینے کے لیے ایک پینترا بدلا گیا۔

(جاری ہے)

۔
(عمران حکومت کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ ہر معاملے پر بہت آگے آ کر کریڈٹ لیتے ہیں مگر اپنی یو ٹرن پالیسی کے تحت وہی کریڈٹ اگلے کچھ دنوں بعد انکے لئے ڈیبٹ بن جاتا ہے اور ورکرز کو بھی سبکی اٹھانی پڑتی ہے)
اور اچانک وزیراعظم نے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دے دی اور یہ موقف اپنایا گیا کہ نواز شریف شدید بیمار ہیں اور انسانی ہمدردی کے تحت انکو جانے دینا چاہیے۔

۔۔
اس موقف پر بھی داد وصول کی گئی۔۔۔
لیکن عدالتی مدت ختم ہونے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا پر ڈیل کی خبریں گردش کرنے لگی۔۔
کچھ صحافیوں نے بھی باخبر ذرائع سے ڈیل ہو جانے دعوے کیے۔۔۔شیخ رشید نے بھی دعویٰ کیا کہ نواز شریف ڈیل کر کے گیا ہے۔۔۔
جب یہ بات چلی تو سوال اٹھنے لگے کہ خان صاحب تو ہر روز کہتے تھے کہ میں این آر او نہیں دونگا تو پھر ڈیل کیسے ہو گئی۔

۔۔
جب یہاں سبکی ہوتی نظر آئی اور کریڈٹ ڈس کریڈٹ ہوتا نظر آیا تو ایک نیا موقف اپنایا گیا کہ ڈیل کرنے والوں نے کر لی اور خان صاحب کو پتہ ہی نہ چلا۔۔۔
لیکن اس موقف پر بھی جب سوال اٹھا کہ اگر ڈیل کرنے والی کمپنی کوئی اور ہے تو پھر اپوزیشن درست کہتی ہے کہ حکومت کٹھپتلی ہے۔ملک میں درپردہ مارشل لاء ہے تو ۔۔۔سبکی سے بچنے کے لیے پھر ایک پینترا بدلا گیا۔

۔۔
اور ڈاکٹروں اور پنجاب حکومت پر ملبہ ڈال دیا گیا اور بیانیہ بنایا گیا کہ میڈیکل رپورٹس ہی جعلی اور جھوٹی تھی۔۔۔۔
اس پر ڈاکٹروں نے اور پنجاب حکومت کی جانب سے ڈاکٹر یاسمین راشد نے رپورٹس اور نواز شریف کی ناساز حالت کی تصدیق کر کے نیازی حکومت کے لیے مزید سوالات کھڑے کر دیے۔۔۔۔
پھر ایک پینترا بدلا گیا اور پرس کانفرنسیں کی گئی کی نواز شریف کو انٹر پول کے زریعے لایا جائے۔

۔لیکن بد قسمتی سے ہفتہ بھر میں یہ چورن بھی پھیکا پڑ گیا۔۔۔
دوسری طرف عدالت نے مدت ختم ہونے پر ایک دوسرے مقدمے میں نواز شریف کو مفرور قرار دے کر حکومت کے پے در پے بدلتے ڈیل سمیت سارے بیانے کے غلط ثابت کر دیا۔۔
عین ایسے وقت پر اپوزیشن کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔۔۔
نواز شریف کو میزبان پی پی نے شرکت کی دعوت دی جو قبول کر لی گئی۔

۔۔
جیسے ہی نواز شریف کی وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کی خبر چلی حکومتی وزراء اور مشیروں نے میدان سنبھالا اور یکے بعد دیگرے پرس کانفرنسیں کر ڈالی اور موقف اپنایا کہ کسی بھی صورت ایک عدالت سے مفرور قرار دیے جانے والے شخص کی تقریر نشر نہیں کی جائے گی ،پیمرا کو نوٹس جاری کر دیے گئے۔تقریر نشر کرنے والے چینلز کے لائیسنس منسوخ کرنے کی باتیں کی گئی۔

۔۔
مگر کچھ ہی گھنٹوں بعد وزیراعظم نے اسی مفرور قرار دئیے جانے والے شخص کی تقریر نشر کرنے کی اجازت دے دی۔۔اور موقف اختیار کیا کہ یہ نیازی حکومت کا بڑا پن ہے اور نواز شریف خود عوام کے سامنے بے نقاب ہونگے۔۔۔
مگر حقیقت اس سے زرا مختلف ہے۔
اب یہ بحث الگ ہے کہ تقریر کسی کی گئی اسکے عوامی نتائج کیا ہونگے۔۔۔
مگر ن لیگ کو یہ علم تھا کہ عدالتی فیصلے کی آڑ لے کر تقریر میڈیا پر نشر نہیں ہونے دی جائے گی اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ تقریر کو سوشل میڈیا پر نشر کیا جائے جو پاکستانی حکومت کی دسترس میں نہیں ہیں۔


اس مقصد کے لیے نواز شریف کے سوشل سائٹس اکاؤنٹ ٹوئٹر اور فیس بک بنائے گئے۔۔۔
مگر چند ہی گھنٹوں میں سارے رکارڈ ٹوٹ گئے اور قلیل ترین وقت میں نواز شریف کے فالوورز لاکھوں میں پہنچ گئے اور نواز شریف اور انکا پہلا ٹویٹ "ووٹ کو عزت دو" ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔۔۔۔
اور انٹرنیشنل میڈیا خصوصاً بی بی سی نے اس ٹرینڈ کو رپورٹ کرنا شروع کیا۔۔

۔۔
تو حکومت کو یہ احساس ہوا کہ پابندی کے باوجود ہم نواز شریف کی آواز کو ہر گھر پہنچنے سے نہیں روک سکیں گے۔۔اور اپنے اس عمل پر میڈیا اور عوام کے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔لہذا اجازت دے دی گئی کہ تقریر نشر کی جائے۔۔۔۔
یہ نہ تو نیازی حکومت کی کو ہمدردی تھی نہ بڑا پن بلکے مجبوری تھی۔۔
اور آئندہ وقت میں اس موقف پر نیازی حکومت کریڈٹ ڈس کریڈٹ ہو جائے گا۔

۔۔
اور پھر اے پی سی ہوئی اور اس پر بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ عوامی مقبولیت میں اے پی سی بہت پیچھے رہ گئی اور نواز شریف کی تقریر آگے نکل گئی۔۔۔۔
اب یہ بحث قطعی مختلف ہے کہ اے پی سی کے مقاصد کیا تھے،اسکے نتائج کیا آئیں گے۔۔۔
مگر اتنا ضرور ہوا کے نواز شریف کی ایک تقریر نے ہی حکومت کی ساری مضبوطی اور بے خوفی کی واٹ لگا دی۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :