چین بیرونی سیاحت میں پہلے نمبر پر

جمعرات 2 ستمبر 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

حالیہ برسوں میں دنیا کے مختلف ممالک نے سیاحت کو معاشی ترقی کے ایک اہم اشاریے کے طور پر گردانا ہے اور  کئی معیشتوں کا تو کلی انحصار ہی شعبہ سیاحت پر ہے۔یورپی ممالک کی ہی مثال لی جائے تو ہر سال کروڑوں افراد مختلف یورپی ممالک تفریح کی غرض سے جاتے ہیں جس سے وہاں معاشی پہیے کو رواں رکھنے میں نمایاں مدد ملتی ہے۔اسی طرح کئی ایشیائی ممالک میں بھی سیاحتی سرگرمیوں کو بھرپور فروغ دیتے ہوئے عوام کے لیے ثمرات حاصل کیے گئے ہیں۔

انہی ممالک میں چین بھی شامل ہے جو نہ صرف سیاحوں کی آمد کی ایک پرکشش منزل ہے بلکہ چینی سیاح دنیا بھر کا رخ کرتے ہیں اور وہاں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔گزشتہ چار دہائیوں میں چین کی تیز رفتار معاشی ترقی کی بدولت چینی عوام دنیا کے کسی بھی حصے میں مزید آزادانہ طور پر سفر کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


چین میں آج سے 40 برس قبل بیرون ملک سفر کرنا عام لوگوں کے لیے ایک خواب کی مانند تھا ، کیونکہ ان میں  اکثریت روزی روٹی کمانے کے لیے جدوجہد کرتی تھی اور سیاحت کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔

دوسری جانب وہ چند لوگ جو بیرون ملک سفر کرنے کے متحمل ہوسکتے تھے انہیں ویزے کے حصول میں مسائل درپیش تھے کیونکہ بہت سارے سفارت خانوں کو یہ خدشہ رہتا تھا کہ سیاحتی ویزے حاصل کرنے والے افراد شائد وطن واپس نہ لوٹیں۔
بیرونی سیاحت  کے ساتھ ساتھ چین میں  اندرون ملک سیاحت بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی ، کیونکہ اول تو لوگوں کے پاس اتنے مالیاتی وسائل نہیں تھے اور دوسرا روزگار کی مصروفیات کی وجہ سے اُنہیں ملک کے دوسرے حصوں کا دورہ کرنے کا وقت ہی نہیں مل پاتا تھا۔

ملازمین بلا ناغہ ہفتے میں چھ دن کام کرتے تھے۔ ایسے افراد جو  بیجنگ ، شنگھائی جیسے شہروں یا ہانگ جو یا کوئی لین جیسے سیاحتی مقامات کے دورے کر چکے ہوں ، اُن سے ملاقاتوں کے دوران ان مقامات سے متعلق گفتگو بات چیت کا پسندیدہ موضوع تھا۔لیکن 1978میں چین میں اصلاحات اور کھلے پن کے بعد گزشتہ چار دہائیوں میں صورتحال ڈرامائی طور پر بدل چکی ہے۔

آج جب چینی شہری کسی جگہ مل بیٹھتے ہیں تو اکثر  ان کی گفتگو کا موضوع گزشتہ سفر کے تجربات یا پھر ان کے مستقبل کے سفر ی منصوبے زیادہ ہوتا ہے۔
اعداد و شمار چینی شہریوں کی سیاحت دوستی کو مزید اجاگر کرتے ہیں  ۔ 2019 میں  چینی باشندوں نے 155 ملین بیرون ملک سفر کیے ،یوں چین بین الاقوامی سیاحت کے اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر جرمنی اور امریکہ موجود ہیں ۔

لیکن اسی سال ملکی سطح پر سیاحتی ٹرپس کی تعداد 06 ارب سے زائد تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً  ہر چینی شہری نے سال میں چار مرتبہ سفر کیا۔ یہ اعداد وشمار وبائی صورتحال سے پہلے کے ہیں کیونکہ سال 2020 سے لے کر آج تک دنیا بھر میں سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔اب آ جائیں سیاحت کی مد میں اخراجات کے تو یہ پہلو انتہائی تعجب انگیز اور چینی شہریوں کی خوشحالی کا آئینہ دار ہے۔

چینی عوام نے بیرون ملک 130 بلین ڈالرز اور ملکی سطح پر سیاحت کی مد میں تقریباً 01 ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی عوام کے معیار زندگی میں کتنی بہتری آئی ہے اور حکومت کی جانب سے پانچ روزہ ورکنگ پالیسی اور سالانہ ایک سے تین ہفتوں کی تعطیلات کی پالیسی سے سیاحت کو بھرپور فروغ ملا ہے۔
عالمی سطح پر وبائی صورتحال کے دوران بیرونی سفری سرگرمیاں محدود ہونے کے باعث چینی شہریوں نے اندرون ملک سیاحت کو ترجیح دی ہے اور اس کا سہرا چینی حکومت کےسر جاتا ہے جس نے انسداد وبا کی ایسی موئثر اور مضبوط پالیسیاں اپنائیں جس سے شہریوں کو اندرون ملک سیاحت کے مواقع مل رہے ہیں اور چین بھر میں سیاحتی مقامات اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔


اکثر چینی شہری کچھ ممالک کی سفری پالیسی میں نرمی سے متعلق جان کر  آنے والے عرصے میں بیرون ملک سفر کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں ایسے ریٹائرڈ چینی شہری بھی شامل ہیں جو دنیا کو دیکھنے اور دیگر ثقافتوں کے بارے میں جاننے کے شوقین ہیں، اس سے پہلے کہ وہ زیادہ عمر رسیدہ  ہو جائیں کیونکہ چین میں ٹریول ایجنسیاں عام طور پر صرف 67 سال سے کم عمر لوگوں کی درخواستیں قبول کرتی ہیں۔


چینی شہری ہزاروں سالوں سے سیاحت اور فطری خوبصورتی کے شوقین رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مشہور شاعروں کی تخلیقات سے عیاں ہے۔ لیکن ماضی میں صرف امیر اور مراعات یافتہ افراد ہی سفر کر سکتے تھے۔لیکن چین کی تیز رفتار معاشی ترقی نے یہ سب کچھ بدل دیا ، اور زیادہ سے زیادہ چینی اندرون ملک  اور بیرونی جانب سفر کرنے لگے۔  آج  چینی عوام کی قوت خرید سے متاثر ہو کر ، دنیا کے بے شمار  ممالک  زیادہ سے زیادہ چینی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے "ویزا آن آرائیول" سمیت دیگر خصوصی اقدامات پر عمل پیرا ہیں ۔اس کے نتیجے میں دنیا کے کسی بھی حصے میں سفر کرنا اب چینی لوگوں کے لیے خواب نہیں رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :