کہیں فاقے اور کہیں اعزازئیے !!!

منگل 19 مئی 2020

Shahid Awan

شاہد اعوان

گزشتہ روز ملک کے معروف دانشور و کالم نویس جناب حسن نثار کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انہوں نے حکومت پنجاب کی جانب سے جوہر ٹاؤن لاہور میں بنائے گئے ایکسپو سنٹر کی جو نقشہ کشی کی گئی ہے وہ خطرناک حد تک ہو شربا اور چشم کشا ہے ۔ اتفاق سے یہ سنٹر جسے صوبائی وزیر صحت نے ووہان ہسپتال کے مترادف قرار دیا ہے ، ناصرف شوکت خانم ہسپتال کے پڑوس میں تعمیر ہوا ہے بلکہ اس کا افتتاح بھی وزیراعظم کے دستِ مبارک سے ہوا ہے اور جس پر 90کروڑ روپے کا خرچ آیا ہے ۔

اس کا احوال حسن نثار صاحب نے یوں کیا ہے کہ مذکورہ ایکسپو سنٹر کو چلانے والے سویپرز ہیں ، اس ریت کے محل میں پانچ سو یونٹ ہیں 16*8سائز کے ہر یونٹ یا کمرے میں دو پائپ کے بیڈ ہیں اور ٹوٹل بیڈ ایک ہزار بنتے ہیں جن کی آپریشنل لاگت 180ملین بتائی گئی ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ کورونا ایکسپو سنٹر میں 413 ایم اوز، 208کنسلٹنٹس ، 882نرسز، 190وارڈ اٹینڈنٹس ، 190سویپرز موجود ہیں جن کی تنخواہوں کا تخمینہ 130ملین ماہانہ ہے اور ایکسپو کرائے پر لیا گیا ہے ۔

ویڈیو میں بتایا گیا کہ اس عالیشان کورونا ایکسپو سنٹرمیں داخل مریضوں نے سہولتوں کی عدم دستیابی پر تین مرتبہ سنٹر سے باہر نکل کر احتجاج بھی کیا جسے سنٹر انتظامیہ نے ان کی منت سماجت کر کے ختم کرایا اور انہیں واپس بھجوایا۔ جناب حسن نثار نے اپنی انکشافانہ ویڈیو میں واضح طور پر کہا کہ وزیر صحت اور بیوروکریٹس نے کورونا کو ”کروڑا“ بنا دیا ۔

 
ملک کی ایک نامور اور ذمہ دار صحافتی شخصیت کی زبان سے جب یہ الفاظ بغور سنے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ ایک طرف تو حکومت پاکستان نے ملک بھر میں’ ہیلتھ ایمرجنسی‘ نافذ کر رکھی ہے اور بار بار یہ اعلان کیے جارہے ہیں کہ کورونا کے خلاف جنگ کے لئے فنڈز کی اشد ضرورت ہے اور اس وبا سے متاثرہ مریضوں کی امداد کے لئے حکومتوں کو امداد فراہم کی جائے ، مگر دوسری طرف ”لُٹ “ مچی ہوئی ہے اور وہ بھی پنجاب کے دارالحکومت میں جہاں وزیراعظم کا گھر اور ان کا ہسپتال بھی ہے ۔

اگر یہی ویڈیو کسی اور کی ہوتی تو اسے جعلی قرار دے دیا جاتا لیکن چونکہ اس ویڈیو کا تعلق میڈیا کی ایک ایسی ذمہ دار شخصیت سے ہے جو تحریک انصاف کا شروع سے لیکر ان کے اقتدار میں آنے تک ہمدرد اور حامی رہی ہے، وہ اس ویڈیو میں بار بار یہی سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس سنٹر کا افتتاح وزیراعظم سے کیوں کرایا گیا؟ وہاں بڑے بڑے دعوے کیوں کیے گئے؟ اور پھر آگے ہاتھ کی صفائی کس نے دکھائی ؟؟ لاہور ایکسپو (کورونا) سنٹر کے ایک ہزار مریضوں کا علاج ”سویپر“ کر رہے ہیں، اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے !!! بقول جناب حسن نثار کہ لوگ کورونا کے نام پر ”کروڑا“ بن جائیں گے اور بیچاری خلقِ خدا تڑپ تڑپ کر مر جائے گی کہ اس مد میں ملنے والی امداد ڈاکٹروں اور عملے کے بجائے ”گماشتوں“ کی جیبوں میں چلی جائے گی ۔

 
پنجاب کے صوبائی دالخلافہ لاہور میں ہونے والی اس ”واردات“ کا سن کر پنجاب کے آخری ضلع اٹک کا احوال جاننے کے لئے جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تو وہ بھی زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھی۔ ہم نے ان معلومات سے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہی ہے کہ ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل سٹاف کو سفید جھنڈے لہرا کر سلام پیش کرنے اور میڈیا پر آ کر چند تعریفی کلمات سے ٹرخانے کے سوا کچھ نہیں دیا گیا ، الٹا کورونا کے سامنے فرنٹ لائن فورس کے نام پر ملنے والی سہولتیں اور مراعات دوسرے لے اڑے ۔

 مزید تحقیق اور اخباری رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ ایوانِ صدر کے لئے ایک کروڑ38لاکھ روپے کا بجٹ جاری کرنے کی منظوری دی گئی جس کے تحت گریڈ صدارتی سیکرٹریٹ کے گریڈ 1سے 20تک کے ملازمین کو ایک ماہ کی اعزازی تنخواہ ادا کی جائے گی، جبکہ ایوانِ صدر کے بجٹ میں اعزازی تنخواہ کی مدمیں تین کروڑ 19لاکھ 40ہزار 240 روپے موجود ہیں۔ سمری کے مطابق مذکورہ افسران اور ملازمین کم آمدنی والے ہیں اور پارٹ ٹائم پر دکانیں اور نجی دفاتر میں بھی کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

جبکہ وزارتِ صحت کی بیوروکریسی نے کورونا کرائسز میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کے نام پر ملنے والا کروڑوں کا اعزازیہ اپنے نام کر لیا اعزازیہ حاصل کرنے والوں میں سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹریز سمیت 150سے زائد ملازمین کو 5بنیادی تنخواہوں کی مد میں اعزازیے سے نوازا گیا ۔ یہ مالی امداد بیرون ممالک سے آنے والی رقوم سے بندر بانٹ کر کے آپس میں بانٹ لی گئی ، جبکہ فیلڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملہ جو اپنی جانوں پر کھیل کر دن رات ایک کیے ہوئے ہیں انہیں تادمِ تحریر ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔

 
محکمہ صحت کے اعلیٰ ضلع حکام کے مطابق حفاظتی کٹس تک کا انتظام وہ خود کرتے پھرتے ہیں اور یہ ایک ضلع یا تحصیل کی روداد نہیں بلکہ پورے پنجاب کے تمام اضلاع اور تحصیلوں کا یہی حال ہے ۔ کس قدر افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ عید آنے کے قریب ہے اور وزارتِ صحت کے ماتحت کام کرنے والے کورونا سے لڑنے والے فرنٹ لائن ڈاکٹرز اور عملہ اپنے حق سے محروم ہیں۔

اُدھروزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے ماتحت کام کرنے والی وزارت نے تاحال وفاقی دارالحکومت کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو حفاظتی کٹس تک فراہم نہیں کیں اور کورونا وائرس کے نام پر کروڑوں روپے کا اعزازیہ کس مد میں سینئر بیوروکریسی نے آپس میں بانٹ لیا۔ یاد رہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے اس حوالے سے جو نوٹیفیکیشن جاری ہوا اس کے آغاز میں ایک بنیادی تنخواہ لکھی گئی لیکن آخری لائن میں جا کر پانچ ماہ کے لئے ہر ماہ کا اعزازیہ درج ہے۔

 
اخباری رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس سے قبل ڈینگی کے حوالے سے اعلان کردہ معاوضہ میں سے بھی ڈاکٹروں اور متعلقہ عملے کو ابھی تک کچھ نہیں ملا اور وہ امداد بھی اوپر ہی اوپر آپس میں حصے بخرے کر لیے گئے ہوں گے۔ حالیہ کورونا کرائسز کے دوران ٹی وی چینلز پر قوم سے چندے کی مد میں حکومت کی طرف سے بار بار اپیلیں کی جارہی ہیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی کٹوتی کر کے سرکاری خزانے میں جمع کرائی جارہی ہیں، جبکہ ملازمین کی تنخواہیں پہلے ہی کم ہیں۔

ملک بھر میں سفید پوش افراد کا بھرکس نکل چکا ہے، پنشنرز ایک ایک پیسے کے لئے تڑپ رہے ہیں ان کے پاس ادویات خریدنے کی سکت نہیں رہی، لوگ حالات سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں اور حکومت کے ماتحت بیوروکریسی ان رقوم سے اضافی تنخواہیں اور بونسز لیکر اللے تللوں میں مصروف ہے ۔ آخر یہ ظلم کب تک جاری رہے گا، اس کا علم کسی کو نہیں! لیکن کورونا کے خلاف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کے ساتھ جو مذاق کیا جا رہاہے، یہ ظلم نہیں ظلمِ عظیم ہے ۔

باب العلم مولا علیالمرتضیٰ کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور انصاف سے عاری حکومت کبھی برقرار نہیں رہ سکتی۔ ایک طرف غریب طبقہ بھوک اور افلاس سے مر رہا ہے، دوسری جانب اعزازئیے بیوروکریسی اور حکمران آپس میں اڑانے میں مصروف ہیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :