محسن پاکستان

پیر 18 مئی 2020

Shahid Awan

شاہد اعوان

تاریخ کے ایک سو مشاہیر“ کا مصنف مائیکل ہارٹ کہتا ہے ” تاریخ کی نظر میں بڑا شخص وہ ہو تا ہے جس نے اوراقِ تاریخ پر ایک نقشِ دوام چھوڑا ہو، جتنا گہرا یہ نقش ہو گا اس قدر نقش چھوڑنے والے کا قد کاٹھ ہو گا۔“
چشمِ تصور سے دیکھوں تو بانیٴ قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی روح ہر پاکستانی سے یہ سوال کررہی ہے کہ میرا ملک دولخت کیوں کیا؟ تم نے کشمیر کا کیا کیا؟ خونِ جگر سے سینچے ہوئے میرے گلشن کو تم نے ویران کیوں کر دیا؟ کیا یہ جرمِ عظیم نہیں کہ آزادیٴ وطن کے دشمن عناصر اپنی من مانیاں کرتے پھر رہے ہیں!!! روحِ پاکستان کے حریف آزادیٴ وطن کے درخشندہ آفتاب پر الزام لگا کر اپنی بے بصری و تنگ نظری کا اعتراف کر رہے ہیں!!! ورنہ قائد اعظم کی عظمت تو اک امر مسلمہ ہے۔

بقول اقبال
مری مشاطگی کو کیا ضرورت حسنِ معنی کی
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
لبوں پر جب ”محسنِ پاکستان“ کے حروف مچلتے ہیں تو ہر محب وطن پاکستانی کی زبان پر عقیدتاٌ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام آجاتا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے قائد اعظم پکارا جائے تو محمد علی جناح کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ موجود ہوتی ہے یا قائدِ عوام کا لقب ذوالفقار علی بھٹو کی پہچان کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

 ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بندہ فقیر کی غائبانہ شناسائی تو عام پاکستانی کی طرح کئی دہائیوں پر مشتمل ہے ، جب 70ء کی دہائی میں سکول کے دنوں ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام سنا کرتے تھے اور پھر کالج کے زمانے میں ہمارا سب سے پہلا عشق ذوالفقار علی بھٹو کی ذات بنی۔ اس کی کئی ایک وجوہات تھیں کہ ہمارے علاقہ میں سرداری نظام کا راج تھا طبقاتی اونچ نیچ، ذات پات کے چرچے عام تھے غریبوں ، مزدوروں، کاشتکاروں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے یعنی عام آدمی محض حشرات الارض کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا۔

۔۔ کہ ایسے میں بھٹو نے مزدوروں، طالبعلموں، ہاریوں غرض معاشرے کے مظلوم و محکوم طبقوں کو ناصرف زبان دی بلکہ ایک عام پاکستانی کو اس کے حقوق سے آگاہی دلائی۔ 
90ء کی دہائی کے آخر میں ملک کا بچہ بچہ پاکستان کو اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی مملکت کا درجہ دلانے والی عظیم شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعارف ہو چکا تھا ۔۔ان کے بارے خبریں اور مضامین پڑھ کر انہیں تاریخ کا کوئی رومانوی کردار سمجھنے لگے تھے جو اپنے وطن اور اس میں بسنے والوں کی خاطر اپنا تن من دھن تج کر دیتا ہے اور ان کے لئے ایسا محفوظ اور روشن مستقبل چھوڑ جاتا ہے جو انہیں دنیائے عالم میں ہمیشہ کے لئے ممتاز کر دیتا ہے ۔

مجھے یاد ہے ان کے بارے میں ایک دفعہ پڑھا تھا کہ وہ انسانوں کے علاوہ جنگلی جانوروں تک سے اس قدر محبت اور ان کا خیال کرتے ہیں کہ مونگ پھلی کے ٹرکوں کے ٹرک صرف مارگلہ پہاڑ پر موجود بندروں کی خوراک کے لئے منگواتے ہیں۔ 
اسی زمانے میں کہوٹہ کے ہمارے بزرگ اخبارنویس دوست محمد ایوب مرحوم ڈاکٹر صاحب کی ایک بڑی فریم شدہ تصویر دینے میرے گھر حسن ابدال تشریف لائے، اس روز سے لیکر تادمِ تحریر وہ تصویر میرے سٹڈی روم میں دیوار پر آویزاں ہے۔

جب 2004ء میں ڈاکٹر صاحب سخت امتحان و آزمائش میں گرفتار تھے تو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اب یہ تصویر دیوار سے اتار دی جائے، مگر میں بضد تھا کہ جب دو مارشل لا ء ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پورٹریٹ نہیں ہٹا سکے توپھر ایک ڈکٹیٹر کے خوف سے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کی تصویر کیونکر اپنی جگہ سے ہٹائی جائے۔ 
خیر وقت گزرتا گیا ہمارے بہت ہی پیارے نامورکالم نویس دوت جناب جبار مزرا کی کتاب ”آن دا ریکارڈ“ میرے مطالعہ میں آئی تو ڈاکٹر موصوف کے بارے معلومات میں مزید اضافہ ہوا ۔

یوں قوم کے اس عظیم محسن سے ”عشق“ کی ایک نئی داستان کا آغاز ہوا، کئی بار ملاقات کا ارادہ بھی کیا مگر کوئی سبیل نہ بن سکی کہ اپنے ”محبوب“ تک رسائی ممکن ہو ۔ چند روز پیشتر برادر مکرم جبار مرزا نے ایک بڑا احسان اور مہربانی یہ فرمائی کہ ”داستانِ عزم“ نامی کتاب مجھے ارسال کی، جب کتاب کھولی تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا اور فرطِ جذبات سے آنکھوں میں نمی سی آگئی ۔

۔۔ کہ کتاب کے اندرونی صفحہ پر میرے ”محبوب“ نے اپنے دستِ مبارک سے 28اپریل2020ء کی تاریخ کے ساتھ میرا نام رقم فرما کر مجھے اپنی خود نوشت عطا فرمائی جو مجھ ناچیز کے لئے کسی فخرو اعزاز سے ہرگز کم نہیں ۔
 رب ذوالجلال نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی صورت میں یہ’ محسنِ وطن‘ اپریل 1936ء کو پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی برصغیر میں پیدا فرما کر ان کا ”انتخاب“ بھی فرما دیا تھا۔

کتاب کے ذریعے جب موصوف کے اوصافِ جمیلہ سے آگاہی ملی تو پتہ چلا کہ وہ ناصرف کمال کے سائنسدان ہیں بلکہ ایک خوبصورت انسان بھی ہیں، انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کاذکر بے پناہ خلوص اور والہانہ انداز سے کیا ہے یہاں ان کے حسنِ ظن کی داد دینا پڑتی ہے کہ ایک معمولی سے ورکر سے لیکر بڑے بڑے عہدوں پر متمکن افسران اور حکمرانوں کا اتنے لطیف پیرائے میں ذکر کیا ہے کہ ان کی ذہانت اور یادداشت پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔

ڈاکٹر عبدالقدیر نے ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کتا ب میں اتنی مرتبہ کیا ہے کہ جس سے ان کی بھٹو کے ساتھ عقیدت و محبت عیاں ہوتی ہے۔ کتاب میں اعلیٰ درجے کا ادب پڑھنے کو ملتا ہے جبکہ ان کی اپنی شاعری اس کی خوبصورتی مزید دوچند کر دیتی ہے، اشعار کے پیکر میں وہ بڑے عجز و انکسار کے ساتھ اپنے اندر چھپے دکھ اور کرب کو اظہار کا جامہ یوں پہناتے ہیں:
اس ملکِ بے مثال میں اک مجھ کو چھوڑ کر
ہر شخص بے مثال ہے اور با کمال ہے
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر#
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
جس سے یہ اندازہ لگانا ہرگز دشوار نہیں کہ کجا ہم اپنے عظیم محسن کے احسنات کا بدلہ چکاتے، ایک ڈکٹیٹر نے مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے احسان فراموشی کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے۔

۔۔تف ہے !!! لیکن اس پر ڈاکٹر صاحب کو دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ نے ان سے جو اتنا بڑا کام لیا ہے اور جس کی بدولت آج پاکستان بلکہ عالمِ اسلام دنیا بھر میں شان سے سر اٹھا کر کھڑا ہے ، یقینا امتحان بھی اسی قدر زیادہ ہی ہونا تھا!
یزید کا عہد خونِ حسین سے رنگین ہے یزیدی فوج نے میدانِ کربلا میں امام عالی مقام  کے سامنے دو راستے رکھے یا تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کر لیں یا مرنے کے لئے تیار ہو جائیں ۔

فوجی جرنیل کی شرمناک ہزیمت کے پس منظر میں عدیم ہاشمی# نے امام کو کیا خوب ہدیہٴ عقیدت پیش کیا ہے:
ہم ایک لاکھ تھے ہم نے جھکا دیا سر کو
حسین تیرے بہتر سَروں کو لاکھوں سلام
سلطان محمود غزنوی کا دور آتا ہے وہ تاریخِ عالم کے اُن چند گنے چنے جنگجو سالاروں میں سے ایک تھے جن کے خوف سے ہندو مہاراجے اپنی راجدھانیوں سے نکل کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے، ان کی عظیم جنگی فتوحات کے سامنے پاکستان کے اس عظیم سائنسدان نے میدانِ عمل میں تو وہ جوہر نہ دکھائے البتہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنی ذہانت کے بل بوتے پر جوہری میدان میں آزما کر جس جانفشانی اور انتہائی نامساعد حالات میں دنیاکے نقشے پر پاکستان کو ساتویں ایٹمی طاقت جبکہ مسلم امہ کو ایٹم کا تحفہ دیا۔

سلطان کی ہیبت سے لرزیدہ ہندو بنیا آج امت کے اس عظیم محسن اور ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اس تخلیق کے نتیجہ میں لگنے والے اس زخم کو زندگی بھر چاٹتا رہے گا ۔
ہماری قوم جو نئے حکمرانوں کا خیر مقدم تو شہنائیوں سے کرتی ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ قافلہٴ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں۔۔۔ رنج اس بات کا نہیں کہ جرمِ ضعیفی کے باعث ہم ظالم کا ہاتھ روکنے سے مقدور ہیں بلکہ دکھ تو یہ ہے کہ ظالموں کا دستِ راست بننا بھی ہمارے لئے باعثِ فخر و اعزاز ٹھہرا۔

 
اِس عہد کے یزید کے ساتھی بھی ہو گئے
نام بھی ادب سے لیا ہے حسین کا
 وقت کا ولی ہونا اتنا آسان بھی نہیں یہ بوریا نشین دنیا کی ہر نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں، یہ ایسے فقیر ہوتے ہیں جن کی خانقاہوں میں بادشاہِ وقت برہنہ پا حاضر ہوتے ہیں یہ لوگ اپنے لئے کچھ نہیں مانگتے ان کے ہاتھ ہمیشہ اللہ کے حضور دوسروں کے لئے پھیلتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو شکر کی اس کیفیت کو جانتے ہیں جو نعمتوں کو دوام بخشتی ہے یہ شکر اور صبر جیسی عظیم نعمتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں، یہ زندگی کی کسی منزل اور ماحول کو کسی کشمکش میں بھی خود کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وخوشنودی کی شاہراہ سے ڈانواں ڈول نہیں ہوتے دیتے انہیں اگر کوئی نعمت دی جاتی ہے تو اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش آتی ہے تو صبر کرتے ہیں ۔

اللہ کادوست بننا اور پھر اس کی آزمائش اپنے خاص بندوں پر ہی آیا کرتی ہیں، محسنِ پاکستان! ہمیں آپ پر فخر ہے پاکستان کا بچہ بچہ آپ کے احسانِ عظیم کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات پر کچھ لکھنا مجھ ایسے کم فہم کے لئے ممکن تو نہیں مگر اپنے تئیں چند ٹوٹے پھوٹے لفظ محض حاضری کی خاطر اپنے محبوب کی نذر کر دئیے، امید ہے شرفِ قبولیت ملے گی ۔ 
 ترے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بستی ہیں کہ فراز#
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :