تاڑی مار اُڈا نہ باھُو۔۔۔۔

جمعرات 2 جولائی 2020

Shahid Awan

شاہد اعوان

خواجہ ذوالنون مصری سے ایک صوفی نے پوچھا، عارف کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: عارف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل سے بشریت کی کدورت دور ہو جاتی ہے اور ان کے دل حرص سے پاک ہو جاتے ہیں اور ان میں عشقِ الٰہی موجزن ہو جاتا ہے ۔ عارف دنیا سے بچتا ہے کیونکہ اس میں حسد وبغض کے سوا ہے ہی کیا؟
یہ مختصر سا ابتدائیہ آج دو نوجوان اموات بارے کچھ رقم کرنے سے قبل اس لئے لکھا کہ اللہ کے ہاں عمر کی کوئی قید نہیں وہ جسے چاہے جوانی میں علم و ہنر کے خزانے اس پر کھول دے اور جسے چاہے بڑھاپے میں عطا فرما دے۔

اول الذکر میرے بہت ہی پیارے دوست اور بھائی سید آلِ عمران جنہوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر سب سے پہلے خطہٴ پوٹھوہار کی میٹھی میٹھی بولی کو دنیا بھر میں عام کیا۔

(جاری ہے)

یہ وصف بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے کہ جو اپنی ماں بولی کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اور وہ بھی عین جوانی میں، ماں بولی سے عشق کی حد تک محبت کرنے والا سید زادہ پوٹھوہاری ایسے بولتا کہ سننے والا عش عش کر اٹھتا آخر کیوں نہ کرتا کہ یہ زبان اس کے لب و دہن پر جچتی بھی تو خوب تھی۔

۔۔ روشن اور بڑی بڑی شرارتی آنکھیں اور کِھلے کِھلے سرخ گالوں پر ڈمپل پڑتے تو اس سے گفتگو کا مزا مزید دوبالا ہونے لگتا ۔ بندہ فقیر کی اس خوش گفتار سے پہلی ملاقات 2007ء میں ایف ایم 97 حسن ابدال میں ہوئی تھی جہاں وہ اسٹیشن انچارج تھا، عید کا روز تھااور وہ حسبِ عادت اپنی مادری زبان میں عید کے مزے لے لے کر حکایتیں بیان کر رہا تھا۔ میں نے گھر سے کھانے کی کچھ چیزیں لیں اور ریڈیو اسٹیشن پہنچ گیا یہ ہماری پہلی ملاقات تھی، آل ِعمران نے مجھے اپنے ساتھ لائیو پروگرام میں شامل کر لیا اور پھر ہم اپنی اپنی مادری زبانوں میں مافی الضمیر بیان کرنے لگے ۔

یہ اچانک میری پہلی انٹری تھی ریڈیو پر، اس کے بعد میں اسی ریڈیو اسٹیشن کے ساتھ بطور پی آر او منسلک رہا گو کہ آلِ عمران اسٹیشن چھوڑ گئے اُن دنوں پنجابی کے پروگرام کے ہردلعزیز میزبان مسعود ملہی کی دھومیں تھیں جبکہ پشتو کے پروگرام کے چرچے اسفندیارخان کے حصے میںآ ئے تھے ۔ خیر بات ہو رہی تھی آلِ عمران کی ، ہمارے درمیان یہ تعلق ایسا مضبوط ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید پختہ اور توانا ہوتا چلا گیا۔

ایک بار انہوں نے مجھے کے ٹو ٹی وی پر علاقائی زبانوں کے حوالے سے گفتگو کے لئے خاص طور پر مدعو کیا اور اکادمی ادبیات میں بھی اسی موضوع پر اظہار خیال کے لئے ادیبوں اور دانشوروں کی ایک نشست میں شامل ہوا ۔ محبت اور باہمی احترام کایہ رشتہ گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا کبھی کبھار فون پر ایک دوسرے کا حال احوال لے لیتے وہ اپنا ادبی مجلہ ”سرگ“ مجھے ارسال کرتے رہتے جس سے پوٹھوہاری شعرو ادب سے آشنائی ملتی اور ان کی عقیدت کا اظہارہوتا۔

اس میں ”اساں ناں سنیہا“ یعنی ہمارا پیغام ”اپنی زبان نی بچانے نی خاطر آپنیاں بچیاں تے مشوماں نال آپنی مادری زبان وچ گلاں کرو“(اپنی مادری زبان کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ اپنی مادری زبان میں بات کیا کریں) بڑے خاصے کی چیز ہوتا ۔
چند ماہ قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ آلِ عمران گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ چنانچہ فون پر خیریت دریافت کی تو اسی خالص پوٹھوہاری لہجہ میں بتانے لگے کہ اب کافی بہتر محسوس کر رہا ہوں اور دعا کی درخواست بھی کی۔

پھر 25جولائی 2020ء کا وہ منحوس دن بھی آ گیا جب سوشل میڈیا کے ذریعے اس جوانِ رعناکی موت کی خبر ملی، خبر کیا تھی ایک زور کا دھماکہ تھا ایک چیخ تھی کانوں کے پردے پھٹنے لگے کہ وہ ناصرف ایک بڑا ادیب تھا، اینکر تھا، اناؤنسر تھا، نعت خواں تھا، نوحہ خواں تھا ، شاعر تھا بلکہ ان سب سے بڑھ کر میرے نزدیک ایک بڑا انسان تھا دنیا بھر میں اس کے چاہنے والوں کے کمنٹس اور یادداشتیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ آلِ عمران جیسے لوگے کبھی مرتے نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔

مرحوم کے ساتھ گزری یادوں کا ایک جم غفیر اور پھر ان کے بارے لکھنے کی کوشش کرنے لگتا تو قلم رک سا جاتا کہ شاید کوئی آکر یہ کہہ دے کہ سوشل میڈیا پر آنے والی اکثر خبریں جھوٹی ہوتی ہیں!!! ابھی اس ”سانحے“ کو 5روز ہی گزرے تھے کہ یکم جولائی 2020ء نماز فجر کے بعد مسجد سے واپسی پر 4.45منٹ پر فون کھولتا ہوں تو وٹس ایپ پر ایک اور روح فرسا خبر ابھری آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ حسن ابدال کے معروف نعت گو شاعر ملک ذوالفقار علی دانش دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں ۔

۔۔۔آہ، آہ میری تو جیسے چیخیں ہی نکل گئیں 42سال کا وہ خوبصورت نوجوان جسے ہڈیوں کا ایک عارضہ لاحق ہو گیا تھا جس کے باعث وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گیاتھا لیکن اس نے اس معذوری کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا ۔ ملک ذولفقار سے محبت اور احترام کا رشتہ تو کافی پہلے سے تھا لیکن ان تعلقات میں زیادہ تیزی اس وقت آئی جب اس نے 2016ء میں محفلِ نعت پاکستان کے تحت حسن ابدال میں نعتیہ مشاعرے کی باقاعدہ بنیاد رکھی وہ ہر ماہ مقامی شعراء کے علاوہ راولپنڈی ، اسلام آباد ، اٹک ، فتح جنگ، ہری پور، ٹیکسلا، واہ کینٹ سے شعرائے کرام کو اپنے ہاں مدعو کرتا اور بغیر کسی توقف کے مشاعرے منعقد کرتا رہا حتیٰ کہ کورونا کے حالیہ حالات کے باوجود اس نے اس سلسلے کو ماند نہ پڑنے دیا اور آن لائن مشاعرے کا انعقاد جاری رکھا بلکہ اپنی وفات سے تین روز قبل بھی اس نے اپنی زندگی کے آخری آن لائن مشاعرے کی میزبانی کی تھی۔

ان مشاعروں میں مجھے وہ خاص طور پر مدعو کرتا کبھی کبھار فون پر کہتا کہ آپ نے ضرور آنا ہے اور مجھ سے آغاز ہی میں کلامِ باھو فرمائش کر کے سنتا۔ کورونا کی وباکا جب آغاز ہوا تو مجھے فون کرکے اجازت لی کہ وہ اخبارات میں کالم لکھنا چاہتا ہے اس سلسلہ میں آپ میری راہنمائی کریں، سو بندہ فقیر نے اسے لکھنے پر خوش آمدید بھی کہا اور یوں چند قومی اخبارات و جرائد میں اس کے مضامین شائع ہونا شروع ہو گئے ۔

کورونا کے بارے اس کی آگاہی سے لبریز معلوماتی تحریریں، وبا کے پھیلاؤ اور اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر ، حکومتی اقدامات، مستند معالجین کی رائے اور ناقدانہ نقطہ نظر اتنے سادہ اور سہل انداز میں اس نے گزشتہ چند ماہ کے دوران اپنے کالموں کے ذریعے قارئین کے لئے پیش کیا وہ ایک ریکارڈ ہے، کبھی کبھی سوچتا کہ ذولفقار کو کالم نگاری کی طرف بہت پہلے آجانا چاہئے تھا ۔

وہ اپنی موت کے روز تک اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے تھا مجھے بھجوائے گئے اس کے آخری چند کالم میرے نزدیک اس کی بخشش کا باعث ہوں گے کہ یوں تو وہ نعت خواں اور نعت گو شاعر ہونے کی حیثیت سے عاشقِ رسول تھاہی مگر اس کے زندگی کے آخری کالم خالصتاٌ اس کے عشقِ محمدیﷺ اور ناموسِ رسالت پر اس کے قلمی جہاد اور دل کی آواز تھے ۔ اسی کے نعت کے اشعار پڑھئے اور سر دھنیے:
بس ایک بار میں چوکھٹ پہ اُن کی سر رکھ دوں
میری بلا سے وہیں پھر مری قضا پہنچے
اُس ایک پل کے لئے میں جیا تھامَر مَر کے
کہ قبر میں مجھے ملنے خود وہ آپہنچے
ذوالفقار علی دانش اچانک حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے اپنے خالقِ حقیقی سے جاملا تھا گزشتہ روز اس کا نماز جنازہ ہوا شہر کے لوگوں کو تو شاید علم ہی نہ تھا کہ عین جوانی میں علم ودانش کے بیش بہا موتی بکھیرنے والا اپنی عمر سے کتنا بڑا انسان دنیا سے جا رہا تھا ، البتہ دوسرے شہروں سے آنے والے اس کے شاعر دوست اورقریبی رفقاء ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کے آنسو بہا رہے تھے اور فرطِ جذبات سے ان کی ہچکیوں کی آوازیں ہمیں سنائی دے رہی تھیں ۔

برادرم وقار عالم جدون ایڈووکیٹ سے ملا تو میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔۔۔کہ ذولفقار علی دانش جیسا شاعر، ادیب اور کالم نویس دنیا سے ایسے اچانک چلا جائے گا یہ تو کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔ مذکورہ دونوں بڑی ادبی شخصیات کے بارے جتنا بھی لکھا جائے کم ہے ۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو نے شاید ایسے لوگوں ہی کے بارے میں کہا تھا:
تاڑی مار اُڈا نہ باھُو
اَسی آپے اُڈن ہارے ھُو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :