سابق صدر افواہوں کی زد میں!

پیر 1 جون 2020

Shahid Awan

شاہد اعوان

ہمارے معاشرے میں کسی پر تہمت یا بہتان باندھنا انتہائی سہل کام سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے مذہب میں کسی پر تہمت لگانا کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اور اس کی سزا صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ روزِ محشر بھی جھوٹا الزام لگانے والوں کو سخت حساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا ۔
 پرانے وقتوں کی بات ہے کسی گاؤں میں ایک ایسا شخص انتقال کر گیا جس کے اعمال قابلِ ذکر نہ تھے معاشرے کی ہر برائی اس میں پائی جاتی تھی، مساجد میں اعلانات ہوئے اور اسے دفنا دیا گیا۔

اسی گاؤں کی انتہائی معزز اور عبادت گزار شخصیت نے اعلان سننے کے باوجود مرنے والے کی بدکرداری کے باعث اس کے جنازے میں شرکت نہ کی ۔ چنانچہ رات کو اس بزرگ شخصیت کو خواب میں کہا گیا کہ جن عبادات اور ریاضات کا تمہیں گھمنڈ اور مان ہے ہم وہ تمہارے منہ پر مارتے ہیں کہ تم نے میرے ایک بندے کی نماز جنازہ میں شامل ہونا بھی گوارہ نہ کیا ۔

(جاری ہے)

آنکھ کھلتے ہی عبادت گزار شخصیت سٹپٹائی اور صبح ہوتے ہی معلوم کیا کہ گزشتہ روز گاؤں میں کسی اللہ کے نیک بندے کا انتقال ہوا ہے؟ تو سب نے ایک ہی جواب دیا کہ فلاں بدکردار جس سے دنیا نفرت کرتی تھی اس کے علاوہ تو کل کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔

اسی کشمکش میں دن گزر گیا رات کو جونہی بزرگ سوئے تو خواب میں غیب سے وہی آواز پھر آئی کہ تمہاری نمازیں اور عبادتیں کسی کام کی نہیں ہیں تم نے میرے بندے کے جنازے میں شرکت کیوں نہیں کی، جاؤ اور اس کی قبر پر جا کر اس سے معافی مانگو۔ اب وہ سفید ریش نیک بزرگ اور زیادہ فکرمند ہوگئے، چنانچہ معاملے کی نزاکت کو سنگین سمجھتے ہوئے مرنے والے کے گھر جا پہنچے اور وہاں پہنچ کر مرنے والے کی بیوی سے دریافت کرنے لگے کہ مذکورہ شخص نے زندگی میں کوئی ایسا عمل کیا تھا جو اللہ کو پسند آگیا؟ مرحوم کی بیوہ نفی میں بولی کہ اس نے زندگی میں کوئی ایسا اچھا کام کیا ہو تو بتاؤں ۔

اپنے نیک اعمال کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا بزرگ ہستی نے مزید کریدا کہ کوئی عمل جو تمہیں یاد ہو ؟ تو وہ بولی کہ میرے خاوند نے مرنے سے قبل بچوں اور مجھے اپنے پاس بلایا تھا اور آسمان کی طرف فریاد بھری نظریں اٹھا کر کہا تھا کہ یا اللہ! میں نے زندگی بھر بے شمار گناہ کیے ہیں میرے گناہ بخش دے میں تجھ سے معافی کا طلبگار ہوں بس مجھے اپنی عافیت میں لے لے ۔

۔۔اور یہ کہتے کہتے وہ آنکھوں میں ندامت کے آنسو لیے دنیا سے رخصت ہو گیا ۔
اپنے آخری وقت میں اللہ کی رحمت سے پرامید ایک گنہگار انسان کی یہ ادا رب کریم کو اتنی پسند آئی کہ ہر وقت اپنی عبادت و بندگی میں مشغول ایک برگزیدہ بندے کو یہ باور کراد یا کہ مرنے والا بھی میرا بندہ تھا اور تو محض احساسِ تفاخر کے زعم میں اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوا کہ تو بڑا نیک اور پارسا ہے اور مرنے والے کی زندگی گناہوں میں لتھڑی ہوئی ہے ۔

سبحان اللہ، خالق کے کام نرالے ہیں وہ بخشنے پر آئے تو طوائف کو ایک پیاسے کتے کی پیاس بجھانے پر اپنی رحمت سے بخش دے اور اگر حساب لینے پر آئے تو بڑے بڑے عبادت گزاروں کی ریاکاری پر عذابِ الٰہی میں مبتلا کر دے ۔
اس روایت کا مقصد گزشتہ چند ماہ سے سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چےئرمین آصف علی زرداری کے حوالے سے بے مہار سوشل میڈیا اور بعض الیکٹرانک میڈیا کے لوگ بھی پورے شدومد سے ان کی کردار کشی پر ہاتھ دھو کر لگے ہوئے ہیں ، کردارکشی اور الزامات تو ایک طرف چند ”معززین“ تو ان کی وفات کی خبریں چلا کر اپنی ”پارسائی“ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنے سے بھی باز نہ آئے ۔

میاں محمد بخش  نے کیا خوب فرمایا: 
دُشمن مَرے تے خوشی نہ کرئیے ، سجناں وی مَر جانا
موت سے کب کسی ذوح روح کو مفر ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں چہرے مہرے سے باشرح سفید داڑھی والے شخص کی ایک وائرل ویڈیو دیکھی جس میں موصوف بلا جھجک اور انتہائی باوثوق انداز سے کہہ رہا تھا کہ آصف زرداری کے نام کے بجائے گالی دیکر فلاں ابن فلاں کئی دنوں سے طبعی موت مر چکا ہے مگر اس کے لواحقین نے موت کو اس لئے پوشیدہ رکھا ہوا ہے کہ وہ اس کا اعلان 27 رمضان المبارک لیلتہ القدر کی مبارک شب کے موقع پر کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔

 مذکورہ ریڈیو میں اس شخص کی باتیں سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ ہم اس قدر خود غرض اور بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہم اللہ کے کاموں میں دخل اندازی سے بھی باز نہیں آتے اور ہم اتنے ظالم ہو چکے ہیں کہ کسی کے مرنے یا بیمار ہونے پر جشن اور خوشیاں منائیں۔ یہ رویے ہمیں کس جانب لے کر جا رہے ہیں!!!
ویڈیو دیکھتے ہی اسی روز لکھنے کا ارادہ تھا لیکن بادل نخواستہ 27رمضان کا انتظار کیا، باربار دل میں آیا کہ اس جھوٹے شخص کے بارے میں ضرور لکھنا چاہئے۔

پھر عید اور عید کی چھٹیاں آگئیں اور اس دوران ایک ایسا ”سچ“ میرے سامنے آیا جس نے اس کاذب کے ڈھول کا پول خود بخود کھول دیا ۔ یہ میرے لئے ایک ایسا معتبرذریعہ تھا جس نے ناصرف میرے دل کی خلش کو کم کیا بلکہ اس جھوٹے کی تردید کا ایک مئوثر اور غیر جانبدار موقع بھی قدرت نے فراہم کرنے میں میری رہنمائی کر دی ۔
 میرے آبائی علاقہ کے فخرِ ونہار برگیڈےئر (ر) ملک غلام عباس نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے فون پر بتایا کہ آصف علی زرداری مجھے 1985ء سے اپنے بڑے بھائی کا درجہ دیتے آئے ہیں وہ ہر عید کے موقع پرمجھے عید مبارک کا پیغام اور فون ضرور کرتے ہیں اور اس عید پر بھی ان کی جانب سے عید مبارک کا پیغام موصول ہواہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ زرداری کے ساتھ میرا یہ تعلق اس وقت سے ہے جب میں نواب شاہ میں ضیاء کے مارشل لاء میں ڈپٹی ایڈمنسریٹر تھا تب سے آج تک ہمارے درمیان باہمی عزت و احترام کا یہ رشتہ برقرار ہے ، سیاسی باتیں اپنی جگہ مگر ایک صفت جو زرداری میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ دوستوں کا دوست اور تعلقات نبھانے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔
 برگیڈےئر عباس کے ان ”انکشافات“ کی بناء پر میں نے ضروری خیا ل کیا کہ جو آصف علی زرداری کی موت پر جشن منانے کے چکروں میں تھے ان کو نوید ہو کہ آصف علی زرداری ناصرف زندہ ہیں بلکہ اپنے پرانے وقتوں کے دوستوں کے ساتھ بدستور رابطے رکھے ہوئے ہیں ۔

بندہ عاجز آصف علی زرادری کا ترجمان نہیں ناہی پیپلزپارٹی کے مراعات یافتہ اشخاص میں شمار ہوتا ہے، آصف علی زراداری سے ہزار اختلافات کے باوجود ان کے دورِ حکومت میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 200%اضافے سے لیکر سرکاری بھرتیاں کرنے، 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری، 58ٹو بی کے صدارتی اختیارات کابینہ کو سونپنے ، ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کی پارلیمانی مدت پوری کرنے اور بدترین سیاسی مخالفین کی سخت تنقید کے باوجود ان سے رابطوں میں کمی نہ لانے جیسے درجنوں اقدامات ان کی وفاداری اور جمہوریت پسندی کی دلیل ہے ۔

 
افسوس! ہم کیسے لوگ ہیں جو محض اپنی ذہنی بیماری اور ذاتی انا کی تسکین کی خاطر ایک زندہ سلامت انسان کے مرنے کی افواہیں پھیلانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور نفرت کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ایسا کر کے ہم وقتی طور پر تو خود کو تسلی دے دیتے ہیں لیکن اپنے ضمیر کی عدالت میں کیا جواب دیں گے؟؟؟ اس ویڈیو کے خالق کا ضمیر کیا اسے رات کو سونے دیتا ہو گا؟ جو اتنے وثوق سے اس بھونڈے انداز سے کسی زندہ انسان کے مرنے کا دعویدار ہو۔۔۔خدارا! بہتانوں اور نفرتوں کے اس عذاب سے نکلیں اور مثبت سوچ کو فروغ دیں ۔ اللہ تعالیٰ آصف علی زرداری کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :