فیلڈ ہسپتال اٹک اور ڈی سی کا انکشاف

جمعرات 11 جون 2020

Shahid Awan

شاہد اعوان

آئے روز ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں جس میں قومی خزانے کو اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق ہر چھوٹا بڑا کھارہا ہے، نچلی سطح سے لیکر اقتدار کے بڑے ایوانوں تک یہ ”کارنامے“ تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ یوں لگتا ہے صرف ملکی وسائل کو استعمال میں لاکر ہی کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا جا سکتا ہے، جس ملک میں سزا اور جزا کا نظام نہ ہو وہاں لوگ شتر بے مہار ہوہی جایاکرتے ہیں ۔

پنجاب کے دار الخلافہ لاہور میں کورونا مریضوں کے لئے بنائے گئے ایک فیلڈ ہسپتال کے بارے میں گزشتہ دنوں بہت سی خبریں زیر گردش رہیں جن میں بتایاگیا کہ اس ”عارضی“ سنٹر پر بے حساب اخراجات اٹھائے گئے ہیں ۔ ایسے حالات میں جب ملک قرضوں کی دلدل میں بری طرح جکڑا ہوا ہے اور موجودہ حکومت کو تو ملکی معیشت کی اتنی فکر دامن گیر ہے کہ کورونا کے نتیجے میں حالیہ خوفناک ترین صورتحال میں بھی انسانی جانوں پر اسے فوقیت دی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر اس وقت ملکی وسائل کو بے دردی سے استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں نہ خوفِ خدا ہے نہ ہی جزا و سزا کا کوئی ڈر۔ اشفاق احمد مرحوم فرماتے تھے کہ ہم اللہ کو تو مانتے ہیں لیکن اس کی ایک نہیں مانتے!!!اہلِ اقتدار تو کجا من حیث القوم ہمارے قول و فعل اس جملے کی گواہی کے لئے کافی ہیں ۔ مالی سال کے اختتام پر ماہِ جون میں سرکاری اداروں کے بجٹ میں شامل ترقیاتی فنڈز کو ختم کرنا ہوتا ہے وگرنہ بچ جانے والی رقم ضائع چلی جاتی ہے ۔

ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پورا سال وہ فنڈ ترقیاتی کاموں میں لگانے کا کسی کو خیال نہیں آتا مگر جونہی مالیاتی سال کا آخری مہینہ سر پر آتا ہے تو بقایا فنڈز کو استعمال میں لانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے اور اس طرح اس رقم کو محض خانہ پری کے لئے زیر استعمال لایا جاتا ہے۔ آج کل جی ٹی روڈ پر سفر کرنے والوں نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ این ایچ اے سڑکوں کو ”پیوند“ لگانے میں پوری تندہی سے مصروفِ کار ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ پیوند صرف ایک بارش کی مار ہیں ۔

اسی طرح صوبوں کے ترقیاتی فنڈز کو گلیوں اور نالیوں کی تعمیر و مرمت پر خرچ کیا جاتا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ اچھی بھلی سڑک کو کھود کر وہاں ایک ایک انچ بجری، ریت اور نمک کے برابر سیمنٹ ڈال کر کام چلایا جاتا ہے ایسے ”ترقیاتی“ منصوبے کبھی دیر پا نہیں ہوتے بلکہ یہ محض ٹھیکیداروں اور ان کے سرپرستوں کی جیبیں گرم کرنے کا بہانہ ہوتے ہیں ۔ جہاں خوفِ خدا رکھنے والے ایڈمنسٹریٹر اور ذمہ دار افسران موجود ہوتے ہیں وہاں مال بنانے والے ایسے عناصر سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے انہیں دباؤ میں لانے کی کوششیں ضرور کرتے ہیں۔

کوئی بیس سال پرانی بات یاد آرہی ہے جب ہمارے شہر حسن ابدال میں صاحبزادہ فیض محمود فیضی جیسے درویش صفت ایڈمنسٹریٹر تھے، شاہ جھولن روڈ کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی اور جو شہر کے تجارتی مرکز کا واحد راستہ بھی تھا۔ وہ مردِ درویش موقع پر پہنچے دکانداروں اور شہر کے چند معززین کو بلایا اور کہا کہ شہر آپ لوگوں کاہے اور یہ سڑک بھی آپ ہی کے زیر استعمال رہے گی اس کو اتنا مضبوط بنایا جائے جو سالوں تک قائم رہے، چنانچہ سب نے اُن کی ہاں میں ہاں ملائی۔

وہ بولے تو پھر کام کی نگرانی بھی شہری خود کریں گے۔ اس نیک صفت آفیسر کی بات ایسی رنگ لائی کہ آج بھی وہ سڑک ایک ماڈل کے طور پر شہریوں کو فیضی صاحب کی یاد دلاتی ہے ۔ گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر اٹک علی عنان قمر نے اپنے کمیٹی روم میں میڈیا بریفنگ کا اہتمام کر رکھا تھا ہم بھی برادر شہزاد کھوکھر کی دعوت پر وقت مقررہ پر پہنچ گئے، صحافی حضرات کورونا اور دیگر موضوعات پر ڈی سی اٹک پر سوالات کی بوچھاڑ کر رہے تھے جبکہ ہم تماشائی بنے سارا منظر دیکھ رہے تھے۔

کچھ دیر بعد جب ذرا طوفان تھما تو ہم ڈی سی آفس میں چند لمحوں کے لئے بیٹھ گئے جہاں میڈیا کے دوست اپنے اپنے چینلز کے لئے ان کی عکس بندی کرنے لگے ۔ خیر باتوں باتوں میں اٹک میں قائم بڑے فیلڈ ہسپتال کی بات چھڑی جو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کامسیٹس یونیورسٹی کے کیمپس میں ہنگامی حالات کے سدباب کے لئے ایک سو بستروں پر مشتمل عمل میں لایا گیا جس میں متعلقہ ضروری سامان کسی بھی ایمرجنسی صورتحال کے لئے موجود ہے اور جو ڈی ایچ کیو ہسپتال سے صرف ایک فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔

ہیلتھ اتھارٹی اٹک کے چیف ڈاکٹر سہیل اعجاز اعوان کی زیر نگرانی بننے والا یہ ہسپتال پنجاب کے دیگر اضلاع کے لئے ایک بہترین مثال ہے ۔ ڈی سی علی عنان قمر ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں بظاہر خاموش طبع مگر زیرک ضلعی سربراہ ہیں، انہوں نے عید الفطر اپنے آبائی علاقہ کے بجائے اپنی پوسٹنگ کے ضلع میں گزار کر ثابت کیا ہے کہ وہ ناصرف کورونا کی وبا کے دوران اپنی حکومتی ذمہ داریوں سے غافل نہیں بلکہ ضلع بھر میں مہنگائی کے طوفان کو روکنے میں ہمہ وقت متحرک نظر آتے ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ مذکورہ فیلڈ ہسپتال پر صرف پانچ لاکھ روپے خرچ آیاہے، ضلعی سربراہ کا یہ” انکشاف“ ہم سب کے لئے حیران کن تھا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی خدا کے ایسے بندے موجود ہیں جو محدود دستیاب وسائل میں رہ کر کام کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں اور بلاشبہ یہ سعادت ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتی ۔ بیوروکریسی کی نوجوان لاٹ میں ایسے کردار انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں کہ جن کے دلوں میں اللہ کا خوف موجزن ہے اور وہ دنیا کی ہر بلا سے ٹکرا جانے کا عزم اور حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔

دعا ہے ایسے باکردار افسران مخلوقِ خدا کے لئے آسانیوں کا باعث بنتے رہیں اور حکومت کو بھی چاہئے کہ ایسے فرض شناس افسران کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی خدمات کو سرکاری سطح پر خراج پیش کیا جانا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :