اللہ کے گھوڑے

بدھ 20 مئی 2020

Shahid Awan

شاہد اعوان

یہ کوئی پون صدی کا قصہ ہے جب ہم بچپن یا لڑکپن میں تھے کہ بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جو آج بھی ہماری یادوں کے دریچوں میں یوں روشن ہیں جیسے ابھی کل کی بات ہو ۔ بچپن کی باتیں انسان کو کبھی نہیں بھولتیں وہ اس کے لاشعور سے ہر لمحہ چمٹی رہتی ہیں ، جبکہ اِس عمر میں رات کا کھایا بھی بھول جاتا ہے ذہن پر کافی زور دینے کے بعد کچھ کچھ یاد آتا ہے ۔ صدقے جاؤں اپنے پالن ہار کے اس نظامِ قدرت کے جس پر بار بار واری جانے کو جی چاہتا ہے۔

اب بھی اکثر خواب و خیال میں کئی بار ویرانوں میں بکھرے بچپن کے یادگار لمحے یاد آتے ہیں تو اگلی صبح ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ طلوع ہو کر پر لطف دن میں بدل جاتا ہے۔ کیا یادگار زمانہ تھا اور اس زمانے سے جڑے کیا عظیم لوگ تھے!! مجھے اپنے بچپن کا وہ ”دُکھ “ کبھی نہیں بھولتا جب ساری ساری رات جاری رہنے والی بارش صبح یکلخت سکول کے وقت رک جایا کرتی تھی ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ واہ کیا سادے ، مگر سچے زمانے تھے۔
وہ بچپن تھا جب شام ہوا کرتی تھی 
اب توصبح کے بعد سیدھی رات ہو جاتی ہے
جب بچپن کی یادیں اپنے حصار میں لیتی ہیں تو نہ جانے کیوں انسان جذباتی سا ہو جاتا ہے اس کی کتنی تاویلیں اور دلیلیں ہوں گی لیکن بچپن تو بس بچپن ہی ہوتا ہے، سو آج بھی لکھنا کچھ اور چاہتا تھا جب بچپن کی یاد چھڑی تو بے اختیار وہی بچپن یوں لپک کر میرے گلے لگ گیا جیسے سالوں کی بچھڑی کوئی کونج اپنے ”ڈار“ سے آملتی ہے۔

وہ اینٹوں کی وکٹیں، وہ ٹوٹا سا بَلا
وہ گلیوں کی رونق وہ اپنا محلہ
وہ جیبوں کے سکے مچاتے تھے شور
 امیری کے دن وہ مٹی کا گَلا
اے بچپن! تُو کہاں کھو گیا ہے 
یا کہہ دے تُو اب بڑا ہو گیا ہے 
اس جذباتی پنے میں یہ نہ ہو کہ ہم اصل موضوع سے ہٹ جائیں تو اُسی طرف چلتے ہیں۔ ہم پینڈوؤں (گاؤں والوں) کے بچپن بھی کتنے سادہ اور حسین تھے نہ بڑی بڑی خواہشیں تھیں نہ تمناؤں کا ہجوم !!! غالباٌ یہ65-66ء کا سن تھا تب ملک کے صدر ایوب خان تھے مگر ہمارے آبائی علاقے’ تلہ گنگ‘ میں ایوب خان کو کم ہی لوگ جانتے تھے وہاں تو کالا باغ کے نواب امیر محمد خان کے گُن گائے جاتے تھے یا پھر ایک افسانوی کردار ملک محمد خان ڈھرنالی کا سکہ چلتا تھا۔

۔۔ مثال مشہور تھی ” دن نون راج فرنگی دا، رات نوں راج ملنگی دا“ (یعنی اگر دن کو انگریز کا سکہ چلتا ہے تو رات کو ملنگی ڈاکو( پنجاب کا کردار) کی حکومت ہوتی ہے) تو اس وقت ملک محمد خان ڈھرنال کا راتوں کو راج ہوا کرتا تھا وہ رات کو ٹمن میں عدالتیں لگاتے اور قتل تک کے فیصلے بھی کر دیا کرتے تھے، کسی تھانیدار یا عدالت کی کیا مجال تھی کہ وہ محمد خان کے فیصلوں کو چیلنج کر سکے ۔

 
ہمیں یہ کہانیاں دادی جان رات کو گھر کے کشادہ صحن میں قطار در قطار پچھی چارپائیوں پر بیٹھ کر سنایا کرتیں تو یوں محسوس ہوتا جیسے تاریک آسمان پر ہر سُو اپنی چاندنی بکھیرے تنہا چاند اور اس کے گرداگرد فلک پر بکھرے اَن گنت ٹمٹماتے ستارے بھی اس عمل میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے۔۔۔ کہانی سنتے سنتے جانے کب ہم دادی جان کی گود میں سر رکھے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہمیں پتہ بھی نہ چلتا۔

اور جب صبح ہوتی تو کبھی والدہ کی چارپائی پر، تو کبھی بڑی بہن کے پاس پائے جاتے ۔۔۔۔ 
ملک امیر محمد خان آف کالاباغ گورنر مغربی پاکستان تھے اور ان کے دستِ راست ہمارے علاقے کے نامور سیاستدان سردار حیات محمد ٹمن تھے جو موجودہ سیاستدان منصور حیات ٹمن کے والد گرامی تھے ۔ جبکہ علاقہ کی ایک اور مشہور ومعروف شخصیت اےئر مارشل نور خان کا رومان اپنے عروج پر تھا جو اکثر ریہرسل کرتے کرتے یا کسی اور مشن کے دوران تلہ گنگ کے گرد خاص طور پر’ ٹمن‘ اپنے آبائی گھر کا چکر لگاتے اور سلامی پیش کرتے اس مقصد کے لئے وہ کمال پیشہ وارانہ مہارت سے جب لڑاکا طیارے کو بہت نیچی پرواز کراتے تو اہلِ علاقہ خصوصاٌ بچوں کے لئے بڑا دلکش نظارہ ہوتا ۔

پھر جب رات پڑتی تو دن کے اجالے میں دیکھے اُس طیارے، جنہیں ہم جہاز ہی کہا کرتے تھے، کی بابت اپنی دادی جان اور والدہ صاحبہ سے پوچھا کرتے تو وہ بتاتیں کہ نور خان ایک پائلٹ ہے اس کی ماں ٹمن میں رہتی ہیں وہ جہاز میں اپنی ماں کو سلام کرنے آتا ہے۔۔۔ ہم خیالوں ہی خیالوں میں ہواؤں میں اڑان بھرتے اور پھر اسی خیالی اڑان میں نیند کی وادی میں جا پہنچتے۔

میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آئے !
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی 
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی !
یہ وہی دور تھا جب دوایسے” انہونیاں “ ہوئیں جو مجھے کبھی نہیں بھولتیں ۔ اماں بتایا کرتی تھیں اور یہ بات مجھے کل کی طرح اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ شدید گرمیوں کے دنوں میں اچانک فضا میں عجیب الخلقت مخلوق ڈاروں کی شکل میں آسمان سے اترتی ہوئی محسوس ہوئی جس نے دن کے وقت ہر طرف زمین پر ایسا سایہ کر دیا جیسے طوفانی بارش سے قبل گہرے کالے بادل کر دیتے ہیں ۔

ہم بچے خوف میں مبتلا ہوگئے اور سہم کر چھپ گئے جبکہ ہمارے بڑے استغفار اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے ، سب کو خوف کے ساتھ تعجب بھی تھا کہ مسئلہ بڑا سنگین ہے۔ خیر آہستہ آہستہ وہ” مخلوق“ زمین کی طرف آنے لگی کچھ درختوں پر آ کر بیٹھ گئی اور کچھ زمین اور فصلوں پر اتر کر پلک جھپکنے کی دیر میں انہیں ویران کرنے لگی۔۔۔
 تب جا کر سمجھ آئی کہ اس ازل کی بھوکی مخلوق کو جسے مقامی زبان میں ”مکڑی“ اور اردو میں ”ٹڈی دل“ کہا جاتا ہے۔

اس آسمانی بلا نے دیکھتے ہی دیکھتے درختوں کے سر بالکل ننگے کر دئیے اور زمین پر جو فصل تھی اسے آن کی آن میں اجاڑ کر رکھ دیا جیسے وہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔ ہم نے اسے بھگانے کے لئے ہاتھوں میں ڈنڈے اور دیگر ایسی چیزیں اٹھا لیں اور اسے اڑانے میں لگ گئے ۔۔۔لیکن جنم جنم کی بھوکی اس آفت نے ہمارے کھیتوں کھلیانوں کا لمحوں میں صفایا کر کے رکھ دیا۔

اُن دنوں یہاں بیری کے درختوں پر بڑے میٹھے بیر لگتے تھے اور ہم بچوں بڑوں کے لئے واحد میٹھا اور مزیدار پھل یہی بیر ہوا کرتے تھے ، مجھے یاد ہے کہ اس سال ”ٹڈی دل“ نے ہمیں اس لذیذ پھل سے محروم کردیا تھا اور سب سے بڑھ کر علاقہ بھر کے تمام درخت ٹنڈ منڈ ہو گئے تھے ہر طرف دھوپ اور ویرانی کا راج تھا ۔ ہم بچوں نے اس آسمان سے نازل ہونے والی اس مخلوق کا نام ”اللہ کے گھوڑے“ رکھ دیا تھا، کیونکہ اگر اس مخلوق کا بغور مشاہدہ کیا جاتا تو وہ زمینی گھوڑے کی ہو بہو تصویر تھی۔

اس زمانے میں جدید آلات تو نہ تھے بس ڈنڈے تھے جو اس مخلوق کو اڑانے کے کام آئے، پھر اتنا لمبا عرصہ بیت گیا بچپن اور لڑکپن جوانی کی دہلیز سے گزر کر بڑھاپے کی سرحد پر پہنچ چکا ہے اس طویل دوارنیے میں اللہ نے ہمارے علاقے کو اس آفت سے محفوظ رکھا ۔ 
 دوسرا واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت بڑا سخت قحط آیا تھا لوگ جانوروں سمیت کھلے آسمان میں نکلتے اور وہاں کھڑے ہو کر اللہ سے بارش کی دعائیں مانگتے، تب ایک بار میرا شریف کے پیر صاحب بھی خصوصی طور پر ہمارے گاؤں تشریف لائے تھے ۔

اس شدید قحط سالی کے دوران کاشتکار اور زمیندار گھرانوں میں تو سال بھر کے دانے موجود تھے لیکن جن لوگوں کی اپنی ملکیتی زمینیں نہ تھیں انہیں حکومت نے مکئی کے دانے دئیے تھے، جو شاید امریکہ سے درآمد کیے گئے تھے وہ دانے اتنے بڑے اور سخت تھے کہ جنہیں جانور بھی نہیں کھاسکتے تھے اور ہم انہیں ہاتھی دانتوں جیسے مکئی کا نام دیتے تھے ۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے ” جو ایک بار وقوع پذیر ہوتا ہے یقینا ایک بار پھر بھی ہوتا ہے“۔

برادر ناصر مغل نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے ایک فرانسیسی کہاوت کی جانب توجہ دلائی کہ جو کام دو بار ہوتا ہے وہ تیسری بار ضرور ہوتا ہے۔ اللہ کے کاموں کا ادراک انسان کے بس کی بات نہیں، لیکن میری عمر کے دیگر احباب کے لئے یقینا یہ کوئی اجنبھے کی بات بھی نہیں کہ ان کی زندگیوں میں چار یا پانچ دہائیاں قبل ٹڈی دل نے فصلوں پر جو حملہ کیا تھا وہ اب ہم نے اپنی زندگی میں دوبارہ بھی دیکھ لیا ہے جس نے بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے ہوتا ہوا اب لاوہ اور تلہ گنگ کے بعض دیہاتوں کو نشانہ بنایا ہے، اس آسمانی بلا نے ہماری آبائی سرزمین پر کئی عشروں بعد دوبارہ یلغار کی ہے اب وہاں فصلوں اور درختوں کی اس نے کیا تباہی پھیلائی ہے وہ تو ہم نہیں دیکھ سکے تاہم تلہ گنگ کے نوجوان اور تازہ دم اسسٹنٹ کمشنر حافظ عمران کھوکھر نے اس ”بلا“ کو ایک ایڈونچر سمجھ کر راتوں رات اس علاقے سے بھگا دیا ہے۔

اب یقینا نیا دور ہے جدید مشینری بھی ہے اور سائٹیفک اوزار بھی ہیں۔ اللہ پاک ہمارے ملک کو ایسی آسمانی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے۔ ایسی وبائیں یقینا اللہ کی فوج اور گھوڑے ہی ہیں جو ہمارے شامتِ اعمال کی وجہ سے ہیں، ان سے حفاظت کے لئے اجتماعی استغفار کی اشد ضرورت ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :