کالم جو نہ لکھا جاسکا

بدھ 19 اپریل 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

ادنیٰ کالم نگار جبلتوں کے اسیر ہوتے ہیں یا درجہ سوم کے اینکر، آخری تجزیے میں کامیاب وہی اعلیٰ خصلت ہوتا ہے جو غیر ملکی ایئر لائن کا مفتے کا فرسٹ کلاس نہ سہی کم از کم بزنس کلاس کا ٹکٹ لے مرے۔
دیار فرنگ مغربی و شمالی کی یاترا واسطے جی للچا اٹھتا تھا، سبیل تھی کہ ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ مرشد نے رجوع کا مشورہ دیا، خاکسار نے لبیک کہا اور ترینوں، خانوں، عباسیوں، قریشیوں کے درجات پر نظر ثانی کی ٹھانی۔

جہازوں کے ہوٹے چوٹے اور پلاٹوں کے جلووں نے رنگ دکھایا اور دو موتیوں جیسے دانے خاکسار کے کالمی دربار میں معزز ہوگئے۔ترینوں او ر خانوں نے بالم گیر خان ترین اور کلیم خان بن کے معزز ہونا ہی تھا ، چانکیہ کی کتاب کہتی ہے، اگر کسی کی دولت اور طاقت سے نہ لڑ سکو تو اپنا حصہ وصولو اور کبھے جاکے سجے ہوجاوٴ۔

(جاری ہے)

حق ہے مرشد۔
سردی جانے کا قصد کرچکی تھی، نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں، پسرِ رشید اپنا وعدہ توڑ کر دوبارہ کالم گردی میں لت پت کہ سفر کے اسباب مہیا ہوگئے۔

شرط صرف اتنی تھی کہ وزیر اعظم پر دِل کھول کر تبرہ بھیجنا او ر ہو سکے تودساور میں مقیم ہم وطنوں کو آپس میں لڑ وا دینا۔میکیا ولی کی کتاب یاد آئی، ’ ہر شخص تمہیں ویسا ہی سمجھتا ہے جیسے تم نظر آتے ہو، چند ایک کو ہی تمہاری اصلیت کا تجربہ ہو پاتا ہے ‘ ۔ دل بلیوں اچھلتا تھا ، کپتان کے دیوانوں اور دیوانیوں سے ملنے کی بے قراری۔ بھوکا پیاسا شاعر خمار پرتاپ گڑھی یاد آگیا
کیسی بے قراری ہے
تم سے ملنے کا ارادہ ہے جانم او جانم
اسٹاکہوم میں کپتان کے دیوانوں کا ہجوم امڈا چلا آیا ۔

ہر ایک وزیرِاعظم پر تبرہ سننے کو بے قرار۔خاکسار نے دِ ل کھول کر بھڑاس نکالی ، چھوٹے میاں کو بھی پیہم رگڑا لگایا۔تم نے ایک ہاوسنگ سوسائٹی نہ بننے دی، آنے دو کپتان کا راج، پسر کبیرالرشید ، نئے پاکستان کا ملک کبیر الرشید البحریہ ولبریہ و فضائیہ ہوگا۔ ایک افسر! صرف ایک افسر ڈھنگ کا مل جائے تو گورنر ہاوس کو پکا پکا اپنے نام لکھوا لوں۔


کوپن ہیگن میں جوتیوں میں کوپن بٹے۔ ایک ناہنجار نے سابق صلاح الدین ایوبی پر ستو پینے کا الزام دھر دیا۔ خون نے جوش مارا کہ ُادھر دریائے آمو کے پار دہائیاں گذریں دوشیزائیں اس کی شجاعت اور ایمانداری کے گیت گایا کرتی تھیں ۔ قسم ہے دیسی مرغیوں کے سوپ کی ایوبی صرف مردان کے باداموں والے گڑ کا اسیر تھا یا پھر ورجینیا تمباکو کا۔کوئی دن جاتا ہے کہ سب آشکار ہوجائے گا۔

البتہ امریکا، برطانیہ ، سعودی عرب، بھارت، ایم آئی فائیو۔کپتان کی پارٹی میں تنظیم نام کو نہی ہے، ایجنٹ گھسے ہوئے ہیں اور کپتان اپنے مشیروں سے لا پرواہ ہے۔بھاڑے کے ٹٹو۔ میں نے سولہ سال اس پارٹی کو اپنے کالموں سے سینچا ہے۔ یہاں بھی خاکسار نے عرض کیا کہ مودی کے یار کو پاکستان پسند نہیں وہ ملک کا سودا کرنے والا ہے، بلکہ ملک کے سارے ادارے تباہ کر چُکا ہے ، گاہے مجبوری میں صلاح الدین ایوبیوں اور خفیہ کے ایماندار سربراہوں کا تقرر کرتا رہتا ہے۔

برگرانِ ملت میں میرا یہ سودا بھی خوب بکا۔
خالص ولایتی مرغیوں کے ہنگام اوسلو میں فرمایا کہ بیرون ملک پارٹی بازی میں ہی قوم کی بقا ہے، کھینچا تانی میں لگے رہو منے بھائیو۔ عرض کیا کپتان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان سے ایسے مِلایا ہُوا ہے جیسے وہ کھانچے والی کال ملاتے ہیں۔ میرے مُنہ میں تھر کے کوئلے والی خاک اگر کپتان کو سہولت کاری کرکے وزیر اعظم نہ بنایا گیا تو بیرون ملک مقیم پاکستانی باغی ہوجائیں گے، یعنی پاکستان میں موجود اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کو پیسے بھیجنے بند کردیں گے اور باغی بن کر اسکینڈے نیویا اور یورپ کی حکومتوں پر قبضہ کر لیں گے۔

میرا یہ تجزیہ سُن کر اکثر دیوانے اور دیوانیاں وجد میں آکر ایسے جھومنے لگے جیسے کبھی کپتان کے دریافت کردہ نصرت قوال کو سُن کر جھومتے تھے۔میزبان کو چندہ مانگتے دیکھ کر عرض کیا با آسانی بارہ سو ارب روپے جمع ہوسکتے ہیں اور اتنے ہی اور پی آئی اے، اسٹیل مل سے جان چھڑا کراگر بیرون ملک مقیم تیس لاکھ پاکستانی ، کپتان کو دو کروڑ ووٹ ڈال دیں اور الیکشن فیس بک اور ٹویٹر پر آزادانہ، شفاف اور منصفانہ طریقے سے کروائے جائیں۔

انسان کو رب نے آزاد پیدا کیا ہے، سبحان اللہ۔ کیا قانون کی حکمرانی ہے ان ملکوں میں، مجال ہے کوئی کسی پر بغیر ثبوت غداری کا الزام لگائے اور کسی کو فلاں فلاں کا ایجنٹ قرار دے یا میڈیا پر بیٹھ کر تجزئیے کے نام پر گالیاں برسائے یا ملک کے وزیر اعظم کو غداری کا سرٹیفیکیٹ بانٹے۔ فراز سے نشیب تک قانون۔ یہی ہے ان کی ترقی کا راز۔ پسرم نے میری تقریریں ریکارڈ کر دی ہیں ، باقی تقریبات میں ڈی جے ٹیپ ریکارڈر آن کر دیا کرے گااور میں پیہم سکون سے بیٹھا صرف ہونٹ ہلانے کی ایکٹنگ کیا کروں گا اور گاہے ہاتھ بھی ہلاتا رہوں گا۔


ادنیٰ کالم نگار جبلتوں کے اسیر ہوتے ہیں یا درجہ سوم کے اینکر، آخری تجزیے میں کامیاب وہی اعلیٰ خصلت ہوتا ہے جو غیر ملکی ایئر لائن کا مفتے کا فرسٹ کلاس نہ سہی کم از کم بزنس کلاس کا ٹکٹ لے مرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :