باکو میں چند روز

منگل 29 اگست 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

ہر چھٹیوں میں بچوں کی طرف سے سیرو تفریح کے لئے جانے کے مطالبے پر مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ کہاں کا ویزا آسانی سے اور جلد از جلد مل سکتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری کا سبب گذشتہ چار دہائیوں سے جاری ہماری قومی پالیسیاں ہیں کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو کوئی مُنہ نہیں لگاتا۔ ترکی، ملائیشیا اور آذر بائیجان شارٹ لسٹ کئے گئے کہ جلد ویزوں کا حصول ممکن تھا۔

ملائیشیا اور آذر بائیجان نے آن لائن ویزا کی سہولت دی ہوئی ہے اور قسمت کی خوبی کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں کے شہری آن لائن ویزا حاصل کر سکتے ہیں، ورنہ انڈونیشیا جیسے ” برادر“ اسلامی ممالک بھی ہیں جنہوں نے بھارت سمیت دنیا کے ایک سو اسی ممالک کو آن لائن ویزا کی سہولت دی ہوئی ہے اور صرف دنیا کے آٹھ ممالک کو یہ سہولت حاصل نہیں بلکہ ویزا کے حصول کے لئے جانچ پڑتال کے کڑے نظام سے گذرنا پڑتا ہے ، اسلامی جمہوریہ پاکستان ان آٹھ ممالک میں شامل ہے ۔

(جاری ہے)

واپس آتے ہیں اپنے مسئلے کی طرف۔ ملائیشیا اور ترکی کے وزٹ چونکہ پہلے بھی کئے جاچکے تھے اسلئے قرعہ فال آذر بائیجان کے نام نکلا۔ آذر بائیجان کی سرکاری ویب سائٹ www.evisa.gov.azپر ویزا اپلائی کرنے اور آن لائن تئیس امریکی ڈالر ویزا فیس ادا کرنے پر تین دن میں ویزا جاری کیا جاتاہے۔ ہم نے شام کو فیملی کے لئے ویزے اپلائی کئے اور اگلے روز دوپہر تک بذریعہ ای میل تمام ویزے آگئے۔

براستہ دبئی، باکو جانے والی فلائٹ میں متحدہ عرب امارات کے علاوہ کئی دیگر خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب، کویت اور عمان کے شہری بھی شامل تھے۔ ۲۰۱۴ ء میں تعمیر ہونے والاباکو کا حیدر علی ئیف انٹرنیشنل ایئر پورٹ بہت خوبصورت ہے، ترکش کمپنی نے دلکش انٹیریر ڈیزائننگ کی ہے۔ آذر بائیجان کا دارالحکومت باکو بہت خوبصورت اور بے حد صاف ستھرا شہر ہے، اکثر بڑے یورپی شہروں کی طرح قدیم اور جدید کا خوبصورت امتزاج ہے۔

باکو ، بحیرہ کیسپئن کے کنارے سب سے بڑا شہر ہے ، باکو شہر کا اکثر علاقہ جزیرہ نما آبشرون پر واقع ہے۔ باکو قفقاظ ریجن کا اہم تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے۔ شہر کے نواح اور قریبی سمندر میں باکو آئل فیلڈز ہیں۔ خوب چوڑی سڑکیں ، بلند و بالا قدیم و جدید عمارتیں ،جا بجا ایستادہ مجسمے، بڑے بڑے پارک اور شاپنگ مالز شہر کا طرہ امتیاز ہیں۔ شہر میں عرب ، ترکش اور ایرانی سیاحوں کی بھرمار تھی۔

یورپی سیاح بھی کثیر تعداد میں نظر آرہے تھے۔ اگست کے ان دنوں میں درجہ حرارت تیس ڈگری سے نیچے تھا اور ہر وقت سکون آور ہوائیں چلتی رہتی تھیں، سردیوں میں یہ ہوائیں انتہائی یخ بستہ ہو جاتی ہیں۔ روسی طرز کی زیر زمین میٹرو ٹرین، جدید ایئر کنڈیشنڈ بسیں اور مختلف کمپنیوں کی ٹیکسیاں پبلک ٹرانسپورٹ کا ذریعہ ہیں۔ جامنی رنگ کی لندن ٹیکسیوں نے عجیب سما باندھا ہوتاہے۔

دیگر مقامی ٹیکسیوں میں بھی وائی فائی کی سہولت حاصل ہے۔ باکو کازیر زمین میٹرو ٹرین سسٹم پچاس سال پہلے سوویت عہد میں تعمیر کیا گیا۔ میٹرو کی تین لائنیں ہیں ۔ زیر زمین اسٹیشنوں کی گہرائی دہلا دینے والی ہے۔ تیز رفتار برقی زینوں سے نیچے اترتے ہوئے اور واپس زمین پر آتے ہوئے دل دہل جاتا ہے۔ مغربی یورپی زیر زمین میٹرو کے مقابلے میں ماسکو اور باکو کے ٹریکس کی گہرائی شاید دگنی ہوگی۔

ہوسکتا ہے مطمع نظر ایٹمی اور میزائل حملوں کی صورت میں ان لائنوں کو بطور پناہ گاہ استعمال کرنا رہا ہو۔ راقم، ماسکو شہر میں ایٹمی حملے کے دوران پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کے لئے بنائے گئے ایک وسیع و عریض بنکر کی سیر کرچُکا ہے ، یہ بنکر ماسکو میٹرو سے بھی منسلک تھا۔ باکو شہر کی سڑکیں جاپانی، کورین ، جرمن ہر طرح کی کاروں اور ایس یو ویز سے بھری ہوئی نظر آتی ہیں۔

اکا دکا ’ لاڈا ‘ کاریں بھی نظر آجاتی ہیں۔ آذری کھانوں کے ساتھ ساتھ ترکش، وسط ایشیائی اور یورپین کھانے بھی دستیاب ہیں۔ آذر بائیجان کی کرنسی آذری منات کہلاتی ہے۔ ایک منات باسٹھ پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ قدیم شہر جسے مقامی زبان میں اچاری شہر کہا جاتا ہے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قدیم شہر میں واقع فصیلیں ، قدیم محلات ، بازار اور میڈن ٹاور دیکھنے کی چیز ہیں۔

بارہویں صدی عیسوی کے میڈن ٹاور کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹج سائٹ کا درجہ حاصل ہے۔ بعض تاریخ دان اس ٹاور کے بعض حصوں کی تعمیر تیسری اور چوتھی صدی عیسوی کی بتاتے ہیں۔ دس آذری منات کے نوٹ پر اس ٹاور کی تصویر چھاپی گئی ہے۔ قدیم شہر میں کئی کاروان سرائے بھی ہیں، جن میں سے چند ایک آج بھی صحیح حالت میں ہیں اور ان میں روایتی ریستوران بنے ہوئے ہیں۔

قدیم شہر کی گلیاں آپ کو چند صدیاں پیچھے لے جاتی ہیں۔ان گلیوں میں گھومتے ہوئے جب آپ نگاہیں اٹھا کر جدید شہر میں بنے فلیم ٹاورز کا نظارہ کرتے ہیں تو قدیم اور جدید کا حسین امتزاج آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ جدید شہر میں گوتھک اور باروق طرز تعمیر کی عمارات کی بہتات ہے۔برٹش عراقی آرکیٹکٹ زاہا حدید کا ڈیزائن کیا ہوا حیدر علی ئیف سنٹر جدید طرز تعمیر کا شہکار ہے۔

وسیع و عریض بلڈنگ اور اسکے اطراف ایکڑوں پر پھیلے ہوئے سر سبز میدان اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ شعلوں سے مماثل فلیم ٹاورز شہر کی نئی پہچان بن چکے ہیں۔ رات کے وقت لائٹنگ شو سے دہکتے فلیم ٹاورز میلوں دور سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ماونٹین پارک سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ باکو میں واقع مسجد بی بی ہیبت ( اس مسجد کو فاطمہ مسجد بھی کہتے ہیں) تاریخی اور مذہبی اہمیت کی حامل ہے۔

اس مسجد میں ہی اثنا ٰء عشری اہل تشیع کے ساتویں امام موسیٰ کاظم  کی صاحبزادی جو کہ چھٹے امام حضرت جعفر صادق  کی پوتی اور آٹھویں امام علی رضا  کی ہمشیرہ تھیں کا مزار ہے۔ شہر میں کئی جنگی یادگاریں بھی ہیں۔ ان میں ترک فوجیوں کی بنائی ہوئی مارٹرز مسجد اور یادگار، برطانوی فوجیوں کی یادگار اور آذربائیجان کی آرمینیا سے نگورنو کاراباخ کے مسئلے پر جاری جنگ میں کام آنے والے فوجیوں کی یاد گار شامل ہیں۔

برطانوی فوجیوں کی یادگار پر برٹش انڈین آرمی کی یونٹ چوراسی پنجاب کے سپاہی چانن خان کا نام بھی کنندہ تھا۔ حکومت کی بہترین سیاحتی پالیسیوں کی بدولت حالیہ برسوں میں سیاحت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ باکو میں بے شمار لگژری ہوٹلز ہیں اور سمندر کے کنارے بہت سے بیچ ریزارٹ ہیں۔ بے شمار بجٹ ہوٹلز بھی ہیں۔ کئی یورپی ممالک کے مقابلے میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی سستی ہے۔

مرکز شہر سے تقریباً چونسٹھ کلومیٹر دور قوبستان نیشنل پارک واقع ہے۔ بنیادی طور پر یہ قفقاز پہاڑی سلسلے کی چٹانوں پر قبل مسیح دور میں بنائے گے نقش و نگار ہیں۔ یونیسکو نے اسے ورلڈ ہیریٹج سائٹ قرار دیا ہے۔ پہاڑی سلسلے کے آغاز میں میوزیم ہے۔ قوبستان سے چند کلومیٹر دور آذر بائیجان کے مشہور گارے اور مٹی کے آتش فشاں (Mud Volcanos ( واقع ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں اس طرح کے آتش فشاں پہاڑوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے، ان میں سے چار سو سے زائد آذر بائیجان میں ہیں۔ جب ہم سہ پہر کے وقت بحیرہ کیسپئن کی ساحلی پٹی کے قریب واقع ان پُر امن آتش فشاں پہاڑوں کے قریب پہنچے تو کئی آتش فشاں گارے والی مٹی اُگل رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مٹی میں جلد کی حفاظت کے لئے مفید قدرتی اجزاء پائے جاتے ہیں۔

بیگم کی فرمائش پر ہم نے فرمانبر دار شوہرہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بے خطر اس آتش فشاں میں ہاتھ ڈال کر تین عدد بوتلیں بھر لیں۔ باکو شہر سے تقریباً پچیس کلومیٹر شمال کی جانب مہمیدی گاوں میں ینار داگ ( جلتا ہوا پہاڑ) واقع ہے۔ پہاڑی کے ایک حصے میں مسلسل آگ بھڑک رہی ہے۔ یہ آگ کبھی نہیں بجھتی۔ اس علاقے میں موجود قدرتی گیس اور تیل کے وسیع ذخائر کی وجہ سے اس پہاڑی میں قدرتی طور پر ہونے والی لیکیج کی وجہ سے یہ آگ بھڑکی ہوئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انیس سو پچاس کی دہائی میں اس آگ کا علم اس وقت ہوا جب ایک چرواہے نے اتفاقی طور پر جلائی۔
آذر بائیجان کی ستانوے فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔ پچاسی فیصد سے زائد مسلمان شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پندرہ فیصد حنفی سنی ہیں۔ تاہم مذہب کا لوگوں کی زندگی میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ آئینی طور پر آذر بائیجان سیکیولر ریاست ہے۔

شہر میں چند ہی مساجد ہیں۔ ایئر پورٹ پر نماز کیے لئے ایک مختصر سی جگہ مخصوص تھی۔ آٹھ روزہ قیام کے دوران اذان کی آواز ایک بار بھی سنائی نہ دی۔یہ شیعہ اکثریت کا ملک ہے مگر عاشورہ کے جلوسوں پر مکمل پابندی ہے۔ لوگوں کی اکثریت مغربی لباس استعمال کرتی ہے۔ مقامی زبان آذری ہے جو زبانوں کے ترکش سلسلے سے تعلق رکھتی ہے اور ترکش زبان سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

آذربائیجان میں یہ زبان لاطینی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، جبکہ روس اور چند دیگر پڑوسی ممالک میں روسی سیریلک رسم الخط اور ایران میں عربی ، فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ تعلیم کا تناسب تقریباً سو فیصد ہے۔ملک کے موجودہ صدر الہام حیدر علی ئیف ہیں جو سابق صدر حیدر علی ئیف کے صاحبزادے ہیں۔ آذر بائیجان کا ایک اور حوالہ بھی قابلِ ذکر ہے۔

صدر الہام حیدر علی ئیف کی اہلیہ مہربان علی ئیفا ملک کی نائب صدر ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں شوہر صدر اور بیوی نائب صدر ہے۔ ان کی بڑی صاحبزادی لیلہ بہت ایکٹیو ہیں اور کئی اداروں کی سربراہ ہیں جبکہ چھوٹی صاحبزادی آرزو بھی کئی بڑے بڑے اداروں کی مالک ہیں۔انیس سالہ صاحبزادے حیدر بھی کاروباری معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اگر آپ سیرو تفریح کے دلدادہ ہیں تو فوری طور پر آن لائن ویزا کی سہولت سے فائدہ اٹھائیں اور یورپ اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع اس خوبصورت ملک کا رُخ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :