
ملالہ فیشن میگزین کے سرورق اور عوام کی زبان پر
جمعہ 4 جون 2021

شازیہ انوار
برطانوی فیشن میگزین ووگ کے جولائی کے شمارے کے سرورق کو کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ اور سماجی کارکن ملالہ یوسف زئی کی تصویر سے سجایا گیا ہے اور اس شمارے میں ان کا ایک مفصل انٹرویو بھی شامل ہے ۔
(جاری ہے)
ملالہ کی شیئر کی گئی تصویر اور ٹوئٹ کو ایک جانب سوشل میڈیاصارفین کی جانب سے خوب سراہا جارہا ہے تو انہیں طرف ایک بڑے حلقے کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔ملالہ کے انٹرویو کوبرطانوی فیشن میگزین ووگ کی جانب سے ’ملالہ کی غیر معمولی زندگی‘ کے عنوان سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا ہے اورمیگزین پروفائل کے طور پر ملالہ کی نمایاں کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہوئے چیدہ چیدہ نکات کو پیش کیا گیا ہے ۔
اس انتہائی مفصل انٹرویو میں ملالہ یوسف زئی نے اپنی ”روشن خیالی“ کا ثبوت دیتے ہوئے ہر شعبہ ہائے زندگی پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے ۔اس سوال کے جواب میں کہ وہ اگلے دس سالوں میں خود کو کہاں دیکھتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ان کے اپنے ذہن میں واضح نہیں ہے کہ ایک دہائی کے بعد وہ خود کہاں ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ وہ برطانیہ میں ہی مقیم ہوں‘ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ واپس اپنے ملک پاکستان جا چکی ہوںیا ہوسکتا ہے کہ وہ کسی تیسرے ملک میں رہائش پذیر ہوںفی الحال وہ والدین کے ساتھ ہیں ۔
دوران انٹرویو انہوں نے بتایا کہ وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے دوپٹہ ضرور پہنتی ہیں‘ کیوں کہ اسے نہ صرف مسلمان بلکہ پاکستانی اور پشتون لڑکی کی شناخت اور نشانی کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ملالہ یوسف زئی کا کہا کہ عام طور پر جب کوئی مسلمان یا پاکستانی لڑکی دوپٹہ یا دوسرا ثقافتی لباس پہنتی ہے تو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ وہ و الدین کے دباﺅ میں ‘ ایک کچلی ہوئی شخصیت کی مالک ہے جو غلط خیال ہے ‘ہم اپنے ثقافتی لباس اور اقدار میں رہتے ہوئے بھی خودمختار ہوسکتے ہیں ۔دوران انٹرویو ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجوئیشن کرنے اور وہاں گزارے گئے دنوں پر بات کرتے ہوئے انہیں زندگی کے بہترین دن قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے زمانے ان کے تین مشغلے تھے یعنی پڑھائی کرنا‘آرام کرنا اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا تھے اور انہیں سب سے اچھا مشغلہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا لگتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستانی اسکول میں ہمیشہ اے ون نمبرز حاصل کرتی تھیں مگر آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک عام طالب علم بن گئیں‘ کیوں کہ وہاں دنیا بھر کے ذہین ترین ذہن پڑھنے آتے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی دوران انٹرویو سیاسی معاملات پر خاموش دکھائی دیں اور انہوں نے کسی بھی تنازع یا مسئلے پر کھل کر بات نہیں کی شاید اس کا ایک سبب ان کی سماجی تنظیم ’ملالہ فنڈ‘ کا دنیا کے 8 مختلف ممالک میں سرگرم ہونا بھی ہے۔ملالہ یوسف زئی کی مذکورہ تنظیم دنیا کے 8 مختلف ممالک میں لڑکیوں کی 12 سال کی عمر تک مفت اور بنا تعطل تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے پر کام کر رہی ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی جانب سے کسی سیاسی بیان دیئے جانے سے ان کی تنظیم پر کوئی فرق پڑے اور انہیں حاصل ہونے والی بین الاقوامی امداد بند ہو۔شاید اسی وجہ سے انہوں نے فلسطین کے مسئلے پر بھی کھل کر بات نہیں کی اور لوگوں کی ناراضگی مول لی۔
انٹرویو کی جس بات کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہ یہ ہے ملالہ کا رومانوی تعلقات اور شادی کے معاملے پر کھل کر بات کرنا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ جب ان کی کئی قریبی سہیلیاں سوشل میڈیا پر اپنے رومانوی تعلقات سے متعلق باتیں شیئر کرتی ہیں تو وہ احساس محرومی کا شکار ہوجاتی ہیں۔انہوں نے شادی سے متعلق بات کرتے ہوئے ملالہ نے سوال اُٹھایا کہ لوگوں کو شادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اور رومانوی تعلقات قائم رکھنے کیلئے لوگ شادی ہی کیوں کرتے ہیں؟ ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو کسی شخص کا ساتھ چاہیے تو اس کے لازمی نہیں ہے کہ نکاح نامے پر دستخط کئے جائیں۔اس بات پر لوگ شدید معترض ہیں اور یہ کہا جارہا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کسی یہودی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے نوجوان نسل کو غلط پیغام دینے کی کوشش کررہی ہیں۔ ہم مسلم معاشرے کی پیداوار ہیں جہاں نکاح کی اپنی اہمیت ہے اور اس کے بغیر رومانوی تعلقات ناجائز قرار دیئے جاتے ہیں۔ ایسے تناظر میں ملالہ جیسی دور اندیش ‘ بین الاقوامی تجربے کی مالک لڑکی کی جانب سے اس قسم کی بات کرنا نہایت تشویشناک اور افسوسناک امر ہے۔
انٹرویو میں ملالہ نے یہ بھی کہا کہ فی الحال ان کا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں تاہم ان کے والدین کے خیالات الگ ہیں بطور خاص والدہ کی خواہش ہے کہ وہ شادی کریں‘ وہ انہیں شادی کی فوائد بتاتی رہتی ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ شادی ایک خوبصورت تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔ملالہ کے والد بھی ان کی شادی کے حق میں ہیں تاہم وہ ان پر اس حوالے سے کوئی دباﺅ نہیں ڈالتے جب کہ بے شمار پاکستانی لڑکے ملالہ سے شادی کیلئے ان کے والد کو پیغامات بھجوا چکے ہیں۔پاکستانی لڑکے ان کے والد کو ای میل کرکے بتاتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس کتنی جائداد اور ملکیت ہیں اور وہ ملالہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں‘جس پر ان کے والد خوش ہوتے ہیں۔
یہ تو انٹرویو کی چنیدہ باتیں تھیں جن پر ہنگامہ برپا ہے۔ اگلے ماہ رسالہ منظر عام پر آنے کے بعد باقی باتیں بھی سامنے آئیں گی اور مناسب ہے کہ اس ضمن میں اس وقت مفصل بات کی جائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شازیہ انوار کے کالمز
-
کرونا وائرس کا نیا حملہ ‘بوسٹر لگوائیں‘ احتیاط کریں
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
بریسٹ کینسر کی الارمنگ صورتحال
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
مہنگائی اور ہم
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
عمر شریف کو فوری طور پر بیرونی ملک بھیجا جائے
منگل 14 ستمبر 2021
-
واقعہ کربلا ‘خواتین کی عزم و حوصلے کی لازوال داستان
بدھ 18 اگست 2021
-
ملالہ فیشن میگزین کے سرورق اور عوام کی زبان پر
جمعہ 4 جون 2021
-
کورونا وائرس ‘ مئی کا مہینہ جنوبی ایشیاء کیلئے خطرناک قرار
جمعرات 6 مئی 2021
-
کورونا آگاہی مہم ،آکسیجن ،ویکسین اور فوری طبی انتظامات
ہفتہ 1 مئی 2021
شازیہ انوار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.