کورونا آگاہی مہم ،آکسیجن ،ویکسین اور فوری طبی انتظامات

ہفتہ 1 مئی 2021

Shazia Anwar

شازیہ انوار

آفس بوائے کو اپنے گاؤں جانا تھا اور انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بند ہونے کی خبریں آرہی تھیں‘ وہ پریشان بھی تھا اور کچھ غصے میں بھی ۔ میں نے اس سے کہا کہ جو ہورہا ہے وہ ہماری فلاح کیلئے ہی ہے‘ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس نے ایک لمحہ رکے بغیر کہا ”کوئی کورونا نہیں ہے‘ یہ بین الاقوامی امداد لینے کیلئے پراپگنڈہ کیا جارہا ہے۔


میں اس کے بعد دوسری کوئی بات کرنے کے قابل ہی نہ تھی کیوں کہ واقعی ہمارا واسطہ صرف کورونا سے نہیں بلکہ عقائد اور جہالت سے بھی ہے۔اس وقت کورونا وائرس کی تیسری اور خطرناک ترین لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں پڑوسی ملک بھارت میں کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال نے پاکستان میں بھی بے چینی پھیلا دی ۔

(جاری ہے)

وطن عزیز میں بھی کوئی قابل ستائش صورتحال نہیں ہے ۔ یہاں بھی خصوصا ًپنجاب میں مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں اورطبی عملے پر کام کا دباؤ بڑھ گیا ہے جبکہ اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر لاہور شہر میں باقاعدہ ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے تنبیہہ کی ہے کہ ملک بھر میں برطانوی قسم کا کورونا وائرس پھیل چکا ہے ‘ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو حالات گزشتہ جون سے زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔

اسد عمر نے اس امر پر بھی تشویش اور بے بسی کا اظہار کیا کہ حکومت کورونا وائرس کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد فیصلے کرتی ہے‘ حفاظتی تدابیر کے حوالے سے احکامات اور ہدایات جاری کرتی ہے‘ لیکن عوام الناس ان پر عمل درآمد نہیں کرتے ‘ جس کی وجہ سے صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ محض سیاسی بیان نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں لوگ ابھی تک اس وبا کو سنجیدگی سے لینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔

عوام کی بڑی تعداد کورونا وائرس کو بیماری تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ حکومتی ہدایات پر عمل درآمد کو بھی ضروری نہیں سمجھتے ۔یہ اللہ کا ہمارے ملک اور قوم پر احسان ہے کہ ہمارے ہاں یہ وبا اُس تیزی سے نہیں پھیلی‘ جس تیزی سے اس نے دنیا کے دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اس میں ہماری تدبیر یا حکمت عملی کا کوئی خاص عمل دخل نہیں‘ یہ محض اللہ پاک کی رحمت خاص ہے۔

ایک اور حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اموات کی شرح کم اور صحت یاب ہونے الوں کی شرح زیادہ ہے یعنی تقریبا ً93 فیصد بنتی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ لوگ پارٹیاں کریں اور بغیر کسی احتیاط کے پارکوں اور بازاروں میں گھومتے نظر آئیں‘ یہ انتہائی ضروری ہے کہ عوام کی جانب سے اس وبا کے متعلق سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اور کورونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر پر عمل کیا جائے تاکہ اس وبا کے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔


پاکستان چونکہ ایک ترقی پذیر اور کہہ سکتے ہیں کہ غریب ملک ہے جس کا گزارہ امداد پر ہوتا ہے ایسے میں کورونا کی وجہ سے بڑھنے والی معاشی مشکلات ملک کیلئے زہرقاتل ثابت ہوسکتی ہیں۔ و زیر اعظم عمران خان بار بار اس جانب اشارہ دے رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن لگانے سے دیہاڑی دار طبقہ پس جائے گا ۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی مشکلات بڑھی ہیں۔

خاص طور پر چھوٹے اور متوسط کاروباری ادارے اور کمپنیوں کی مالی مشکلات میں گوناں گو اضافہ ہو ا ہے۔ معاشی ماہرین خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ مشکلات مزیدبڑھیں گی۔ جہاں تک پاکستان کے اقتصادی حالت کا تعلق ہے تو وہ کورونا وائرس سے پہلے بھی اچھی نہیں تھی اور کورونا ئی صورتحال نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ اس پر سے مہنگائی کا بے قابو ہوتا جن لوگو ں کے سینوں پر چڑھ بیٹھا ہے۔

اس وقت ہر دوسرا آدمی مہنگائی کا رونا رو رہا ہے‘متوسط اور زیریں طبقات سے تعلق رکھنے والوں کیلئے زندگی دشوار گزار ہوچلی ہے ۔ مصائب میں گھرے عوام کیلئے اس وبا سے بچنے کیلئے علاج معالجے کی مناسب سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔
فروری 2020 ء میں کورونا وا ئرس کی پاکستان میں آمد کے بعد احتیاطی حکمت عملی کے تحت تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے جبکہ کاروباری اور دیگر سماجی سرگرمیوں کو محدود کر دیا گیا۔

ملک کے مختلف حصوں میں لاک ڈاؤن سمیت مختلف پابندیاں عائد کر دی گئیں لیکن ہمارے ہاں کورونا ویکسین کی تیاری و خریداری اولین ترجیح نہ تھی جبکہ دنیا کے مختلف ممالک ویکسین کے حصول کیلئے فوری طور پر متحرک ہو گئے۔ ہمسایہ ملک بھارت اس ضمن میں تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے نکل گیا۔ بھارت نے شروع سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ آسٹرازی نیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کاوی شیلڈ کا لائیسنس حاصل کر کے مقامی طور پر ویکسین تیار کرئے گا۔

چنانچہ بھارتی شہر پونا میں ”سیرم انسٹیٹیوٹ “نے یہ لائسنس حاصل کیا۔ بھارتی حکومت نے 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔یہ ادارہ ایک ماہ میں ایک لاکھ خوراک تیار کرنے لگا ماہانہ ایک کروڑ خوراک کی تیاری اس کا ٹارگٹ تھا‘2020 ء میں ہی بھارت دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین تیار کرنے والا ملک بن چکا تھا۔اب یہ الگ بات ہے کہ بھارت میں جب صورتحال خراب ہوئی تو اس کی وجہ آکسیجن کی عدم دستیابی تھی ۔

اب دنیا کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ صرف ویکسین کی دستیابی کی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ دیگر طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی ضروری اقدامات کئے جانے چاہئے۔
اگر پاکستان میں ویکسین کی صورتحال پر بات کی جائے تو نجی طور پر سپوتنک وی ویکسین محدود مقدار میں صرف کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں دی گئی ہے جبکہ فروری سے شروع ہونے والے سرکاری ویکسینیشن کے پروگرام میں صرف 60 برس سے بڑی عمر کے افراد کو چینی ساختہ سائنو فارم اور 70 برس سے بڑی عمر کے افراد کو کانسینو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ 21 اپریل سے 50 سے 59 برس کے افراد کیلئے بھی ویکسینیشن کا آغاز ہوا ہے۔اگر پاکستان کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو 21 کروڑ کی آبادی والے ملک میں اپریل 15 تک وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق تقریباً 15 لاکھ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جس میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ عام شہری جبکہ باقی ہیلتھ ورکرز ہیں ۔

یہ پاکستان کی کل آبادی کا بمشکل ایک فیصد ہے جبکہ اگر پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاوٴ کا جائزہ لیا جائے تو مارچ کے وسط میں آنے والی تیسری لہر پہلی دونوں لہروں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک پاکستان میں کورونا وائرس کے مجموعی طور پر ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ متاثرین کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ کل ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے 16 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔

پاکستان نے دو فروری کو چین کی جانب سے امداد کی کی گئی سائنو فارم ویکسین سے ملک میں ویکسینیشن کا عمل شروع کیا تھا اور پہلے مرحلے میں صرف ہیلتھ ورکرز کو ویکسین دی گئی ‘15 فروری کے بعد سے 60 برس سے زیادہ عمر والے عام شہریوں کو ویکسین لگائی جارہی ہے جبکہ 50سال سے کم عمر والے عام شہریوں کیلئے بھی سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے۔
تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی آگاہی مہم قومی سطح پر شروع نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی 50 برس سے کم عمر کے وہ شہری جو ویکسین لگوانے کے متلاشی ہیں‘ سرکاری طور پر ویکسین حاصل کرنے کے منصوبوں سے مطمئن ہیں ۔

انہیں خدشہ ہے کہ جب ان کی باری آئے گی تو ملک میں ویکسین نہیں ملے گی۔ویکسین لگانے کا معاملہ جس سست روی کا شکا رہے اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ 50سال سے کم عمر کے لوگوں اگلے پانچ سال بھی باری نہیں آئے گی۔ معاشی مستحکم افراد 10یا 12ہزار دے کر نجی طور پر ویکسین لگوالیں گے لیکن ایک عام شہری یا ایک دیہاڑی دار مزدورجس کے پاس کھانے کیلئے پیسے نہیں ہیں وہ ویکسین لگوانے کیلئے پیسے کہاں سے لائے گا۔

اُس کے پاس انتظار کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔حکومتی ذمہ داران کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے ۔اس کیساتھ ساتھ طبی سہولیات خصوصا آکسیجن بہم پہنچانے کیلئے فوری طور پر ضروری اقدامات کئے جائیں ۔
خدانخواستہ اگر کورونا کی وبا زیادہ شدت سے ہم پر حملہ آور ہوئی تو ہم کسی بھی صورت اس کا مقابلہ کرنے کے اہل نہیں ہیں اس لئے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کئے جانے چاہئے اس کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدمات اور ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کی جانی چاہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :