بریسٹ کینسر کی الارمنگ صورتحال

ہفتہ 15 جنوری 2022

Shazia Anwar

شازیہ انوار

یہ آج سے کم از کم بیس سال پہلے کا تذکرہ ہے‘ میری ملاقات پاکستان کی ایک معروف ماہر امراض نسواں سے ہوئی ۔ دوران گفتگو انہوں نے چھاتی کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح پر بات کرتے ہوئے کہا ”مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو آنے والے چند سالوں میں ہر 10میں سے ایک پاکستانی عورت اس مرض میں مبتلا ہوگی“ اور آج ان کی یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے۔

آج پاکستان میں ہر 9میں سے ایک عورت کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خطرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین اس مرض کی لپیٹ میں آسکتی ہیں‘یہ تعداد اسلام آباد کی مجموعی آبادی سے کہیں زیادہ ہے ۔ اسے بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ پورے ایشیاءمیں پاکستان وہ ملک ہے جہاں اس مرض کی جڑیں سب سے گہری ہیں۔

(جاری ہے)

اس مرض کی اہمیت اور تشویشناک صورتحال کے پیش نظر مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے آگاہی مہم چلائی جارہی ہے جبکہ ماہ اکتوبر خصوصی طور پر چھاتی کے سرطان سے منسوب ہے اور اسے پنک ٹوبر کا نام دیا گیا ہے ۔

ہر سال اس ماہ کوبطور خاص چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے ۔ رواں سال میں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ سرکاری اور اعلیٰ سطح پر بھی اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اس مہم کی سرپرستی کی اس ضمن میں خاتون اوّل پاکستان ثمینہ عارف علوی اور گورنر سندھ کی اہلیہ ریما عمران اسماعیل کی خدمات قابل قدر ہیں جبکہ پاکستان میں اس مرض کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم پنک ربن کے چیف ایگزیکٹیو عمرآفتاب کی 13سالہ کوششیں بھی ہمارے سامنے ہیں لیکن یہ معاملہ کچھ اتنا سنجیدہ ہے کہ اس پر صرف ایک ماہ نہیں بلکہ پورا سال توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔


اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ دس سال پہلے محض 2.3 فیصد خواتین بریسٹ کینسر کو جلد رپورٹ کراتی تھیں اوربدقسمتی سے آج بھی یہ شرح 10 فیصد سے کم ہے۔پاکستان میں 70 فیصد خواتین کینسر کی تیسری یا چوتھی اسٹیج پر ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں 18سے20سال کی لڑکیوں کا اس مرض میں مبتلا ہونا سب سے زیادہ پریشان کن بات ہے کیوں کہ اس عمر میں ہونے والے سرطان میں شرح اموات بہت زیادہ ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے نوجوان لڑکیوں میں سرطان کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان میں کینسر رجسٹری کا کوئی نظام نہیں ہے۔اول تو چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات یا اس کینسر میں مبتلا خواتین کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور جو ہے وہ اصل تعداد سے کہیں کم ہے کیونکہ کینسر کے کیسز رجسٹرڈ نہ ہونے کے باعث اصل تعداد معلوم ہونے کا امکان نہیں ہے لہٰذاانتہائی ضروری امر یہ ہے کہ حکومتی سطح پراس مرض کی رجسٹری کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہمیں صحیح صورتحال کا علم ہوسکے علاوہ ازیں اس مرض کے حوالے سے چلائی جانے والی آگاہی مہم کو مزید تیز ہونا چاہئے یہاں تک کہ ہماری ہر لڑکی اور عورت نہ صرف اس مرض کے مضمرات سے آگاہ ہوجائے بلکہ انہیں اس سے بچنے کے گر بھی آجائیں۔


چھاتی کے سرطان سے بچنے کا مو ¿ثر ترین طریقہ باقاعدہ اسکریننگ ہے۔متعدد طبی مراکز میں 40سال سے زائد عمر کی خواتین کیلئے اس مرض کی مفت ا سکریننگ ‘میموگرافی اور بائیو اپسی کی سہولت موجود ہے ۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ 50 سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین مکمل طور پر سالانہ اسکریننگ کرائیں۔ علاوہ ازیں اگر کسی خاتون کو اپنی چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی محسوس ہو تو اسے چاہئے کہ فوراً کسی مستند ریڈیالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص سے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :