واقعہ کربلا ‘خواتین کی عزم و حوصلے کی لازوال داستان

بدھ 18 اگست 2021

Shazia Anwar

شازیہ انوار

”اے یزید! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد سے ہم کلام ہونا پڑ رہا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں لیکن یاد رکھ ! میری نظر میںتوایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفو ں کی توہین ہے۔ میری اس جرات سخن پر تومجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر کروں گی ‘تیری بد کلامی و بد سلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔

۔۔۔افسوس کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ہے اور ابھی تک شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں ‘صحرا کے بھیڑئیے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے اردگرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔۔اے یزید کیا یہ تیری عدالت ہے کہ تیری عورتیں اور کنیزیں پردہ میں رہیں ‘رسول زادیاں اسیر بنا کر بغیر چادر شہروں میں پھرائی جائیں اور لوگ ان کا تماشا کریں۔“
 یہ جملے ہیں بی بی زینب ؓ کے جنہوں نے اپنے بابا فاتح خیبر کے لہجے میں کاخ ِیزید میں خطبہ دے کر ظلم کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا اور ظالمین جو یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے مظلوم کربلا کو شہید کر کے اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور کر دی ہے تو حیدر ِ کرار کی شیر دل بیٹی نے اپنے ایک ہی خطبے سے اُن کی یہ غلط فہمی دور کر دی‘ یہ خطبہ جواب ہے اس سوال کا کہ میدان کربلا میں عورتوں اور بچوں کو لے جانے کی کیا ضرورت تھی ‘ نواسہ رسول اکا کوئی قدم بھی حکمت سے خالی نہیں‘اگر میدان کربلا میں صرف مرد ہی ہوتے تو آل رسول کی یہ عظیم قربانی میدان کربلا میں ہی دفن ہوکر رہ جاتی ‘مقصد امام حسین ؓ فوت ہوجاتا اور لوگ اسے محض اقتدار کی جنگ ہی سمجھتے رہتے۔

میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا اصل مقصد اگر آج بھی زندہ ہے تو ان ہی عورتوں اور بچوں کے طفیل ‘جنہوں نے کربلا‘ کوفہ و دمشق بلکہ ہر مقام پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور سیّدہ زینب ؓنے ہر مقام پر اپنی پرجلال تقاریرکے ذریعے نڈر انداز میں عام لوگوں کے سامنے مقصد حسین ؓ واضح کرتے ہوئے کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنایا ۔

زینب ؓکے بے مثل کردار اور قربانیوں سے میدان کربلا میں جلایا جانے والا چراغ آج تک روشن ہے۔ واقعہ کربلا میں صرف عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ شہادت امام حسینؓ کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردارادا کر کے یہ بات ثابت کی کہ حضرت امام حسینؓ کا خواتین اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے جانے کا فیصلہ کتنا صائب تھا۔
بی بی زینب کے ساتھ حضرت کلثوم‘ حضرت سکینہ ‘ اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا ءکی بیواﺅں اور ماو ¿ں کا بھی اہم کردار رہا ہے جنہوں نے کربلا کے پیغام کو عوام تک پہنچایا۔

کربلا کی ان مثالی خواتین نے ملوکیت کی پروردہ قوتوں کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا‘ یہاں تک کہ اپنے سہاگ کو بھی راہ خدا میں قربان ہوتے دیکھا لیکن رسول اللہ ا کے دین کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا۔ واقعہ کربلا کو بے نظیر ولاثانی بنانے میں خواتین کربلا کے بے مثال ایثار سے انکار ممکن ہی نہیں ۔

میدان کربل میں امام حسینؓ کے انصار و مجاہدین کو ان کی ماو ¿ ں اور بیویوں نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ تم سے زیادہ قیمتی جناب فاطمہ زہراؓ کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن ان کو نقصان پہنچا دے‘اگر ایسا ہوا تو ہم روز محشر سیدہ زہراؓ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ ان عظیم ماو ¿ں کی ہمت تھی کہ اسلام کی سر بلندی کیلئے کسی نے اپنی عمر بھر کی پونجی حضرت علی اکبرؓکو امام حسینؓ کے عظیم مقصد پرقربان کیا تو کسی نے اپنے چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو امام عالی مقام کا مجاہد بنا کر پیش کیا‘ تربیت اگر ایسی ماو ¿ں کی ہو تو پھر ایسے فرزند تاریخ میں باقی رہ جانے والے سپوت کیوں نہ بنیں۔


واقعہ کربلا کے بعد تین اہم ذمہ داریاں بی بی زینب ؓ پر آن پڑیںجن میں سب سے بڑی اور اہم ترین ذمہ داری بیمار کربلا حضرت سجادؓ کی تیمارداری اور دشمنوں سے ان کی حفاظت تھی ‘دوسری ذمہ داری بیواﺅں اور یتیموں کی حفاظت جبکہ تیسری ذمہ داری پیغام کربلا کی تبلیغ تھی اور حضرت زینب نے ان تمام ذمہ داری کو انتہائی احسن طریقے سے سرانجام دیا۔

دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو ارادہ حضرت امام حسین ؓ گھر سے لے کر نکلے تھے اسے انجام تک حضرت زینبؓ نے پہنچایا‘ انہی کی سربراہی میں حضرت امام حسین ؓکے اہل حرم نے کوفہ و شام کے گلی کوچے میں اپنے خطبات کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کیا اور رہتی دنیا تک ہونے والی کسی بھی سازش کو بروقت بے نقاب کر دیا۔
حضرت زینب ؓکی بہن اُم کلثوم نے بھی دوران اسیری کوفہ و شام کے بازاروں میں خطبے دیئے۔

انہوں نے اپنے خطبوں میں جہاں کوفیوں اور شامیوں کی امام حسین ؓسے بے وفائی کی مذمت کی وہیں حرم رسول کی طرف نگاہ کرنے سے شدت سے منع بھی کیا۔حضرت امام حسین ؓ کی زوجہ ‘بی بی سکینہ اور علی اصغر کی ماں اُم رباب کو کون فراموش کرسکتا ہے جنہوں نے تمام تر تکالیف کو فراموش کرتے ہوئے اپنے پرجوش اشعار کے ذریعے مقصد حسین ؓ عام کیا ۔ زوجہ امام حسین ؓاور حضرت علی اکبر ؓکی والدہ لیلیٰ بنت عروہ نے اپنے شوہر اور بیٹے کی شہادت کو نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔

حضرت امام حسن ؓ کی زوجہ اورشہزادہ قاسم کی والدہ فروہ کا وہ کردار کون بھول سکتا ہے جب انہوں نے اپنے بیٹے کو جہاد میں بھیجنے کی سفارش کی ۔حضرت اُمِ ربابؓکی خاص خادمہ حضرت فاقہاکے لخت جگر جناب قارب میدان کربلا میں شہید ہوئے لیکن آپ نے بیٹے کی شہادت پر رونے دھونے کے بجائے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنا غم بھلا کر اہلِ بیت کی خدمت میں مشغو ل ہوگئیں ۔

یہاں صرف چند خواتین کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس قافلے میں موجود تمام خواتین کا صبر و ضبط کا مظاہرہ قابل دید تھا ‘ کوئی ایسا نہ تھا جس کے قدم مصائب سے گھبر اکر لڑکھڑاجاتے۔ حالات اورمصائب سے بچنے کیلئے کسی نے بھی یزید نامراد کو حکمران ماننا گوارا نہ کیا بلکہ اپنی ہمت اور عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ یہ تمام لوگ خاص الخاص عشق محمد امیں اپنے گھروں سے نکلے تھے جن کا مقصد صرف اور صرف دین محمدی کی سلامتی کی حفاظت اور پھیلاﺅ تھا۔


سلام ہے ان شہزادیوں اور کنیزوں کو سلام پر‘جنہوں نے اپنی ہمت و دلیری کےساتھ مقصد ِحسینؓ کو زندہ رکھا‘بے شک اگر میدان کربلا میں موجود خواتین حضرت امام حسین ؓکا ساتھ نہ دیتیں تو اُمت مسلمہ کی بیداری کی یہ تحریک کربلا کے میدان سے شروع ہوکر وہیں ختم ہو جاتی‘اس واقعے کو زندہ جاوید بنانا ان خواتین کا ہی کارنامہ ہے ۔ساری دنیا کی خواتین کی توجہ احکام خداوندی کی طرف مبذول کرانا ‘بے خوفی سے باطل کا مقابلہ کرنا ‘ اپنے موقف پر ڈٹ جانا‘ اپنے مسائل کو حل کرنا اور ہر ہر معاملے میں خواتین کی مکمل رہنمائی آج کی مسلمان خواتین کیلئے واضح درس ہے کہ زمانہ کتنا بھی ترقی کیوں نہ کر جائے ‘حالات کتنے بھی سخت کیوں نہ ہو جائیں ‘سماج کتنا بھی برا کیوں نہ ہو جائے مگر یہ سختیاں اور دشواریاں یزیدی مظالم اور مصیبتوں کے مقابلہ میں ہیچ ہیں‘اس لئے ہمیشہ اپنے حوصلوں کا علم بلند رکھیں۔

حق کا ساتھ دیں‘ باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوں تو راستے خود بخود سہل ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :