پتھروں کی بستی‎

پیر 14 دسمبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

گزشتہ دنوں شام کا وہ لمحہ بہت حسین تھا،موسم خاصہ سرد تھا، تیز ہوا کے ساتھ ساتھ بوندا باندی بھی جاری تھی،کافی کا کپ ہاتھ میں لیے میں بازار سے کچھ خر یدنے کی غرض سے فٹ پاتھ پر چل رہا تھا کہ سربازار چلتے ہوئے کسی نے میرے ٹخنے پر ڈنڈے سے چوٹ لگائی‘ درد اور غضب کی کیفیت میں پلٹ کر جب میں نے مارنے والے کو دیکھا تو وہ ایک نابینا شخص تھا جو ڈنڈے سے راستہ ٹٹول رہا تھا‘ غصے کی کیفیت جھٹ سے شفقت اور ترس میں تبدیل ہوگئی اور میں نے اس نابینا شخص کا ہاتھ پکڑا اور اس کو اسکی منزل تک پہنچا کر آیا‘ اس دن مجھے احساس ہوا کہ جب انسان کا نقطہ نظر تبدیل ہوتا ہے تو جذبات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں‘اس احساس کے پیدا ہوتے ہی میں کچھ وقت کے لیے گہری سوچ میں گم ہو گیا، مجھے بار بار ایک ہی خیال ستانے لگا کہ کبھی کوئی ایسا وقت بھی آئے گا کہ پاکستان میں بھی ایک عام شہری کا نقطہ نظر ان محتاج اور سپیشل پا کستانی شہر یوں کیلئے تبدیل ہوگا۔

(جاری ہے)


کب ان محروم اور محتاج لوگوں کو پاکستانی معاشرہ کا ایک اہم جزو تصور کیا جائے گا، کب ان کیلئے بھی یکساں حقوق کتابوں کی بجائے عملی طور پر معاشرے کا حصہ ہونگے۔خدا ہم سب کو امتحان سے محفوظ رکھے۔
 کبھی ان والدین سے پوچھیے کہ جن کی اولاد میں کوئی سپیشل چائلڈ ہے اور وہ اس معاشرے میں کس طرح لوگوں کی حقارت بھری نگاہوں کا نشانہ بنتے ہیں‘ کس طرح ان کے جگر گوشوں کو تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ کس طرح ان کو معاشرے کا ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے‘ کیسے ان کو محلے‘ گلی کوچوں‘ بازاروں اور دفاتر میں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس میں کسی حد تک ہماری قوم کی تربیت اور ہمارے ماحول کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔اس بد تہذ یبی کا آغاز ہمارے گھروں سے شروع ہوکر سکولوں تک جا پہنچتا ہے۔ سکولوں میں ان بچوں کو دوسرے بچوں کے سامنے برے ناموں سے نا صرف پُکارا جاتا ہے بلکہ ان کا تمسخر بھی اُڑایا جاتا ہے۔
 کیا پا کستان میں ر ہتے ہوئے ہم نے کبھی اپنے بچوں کو ان سپیشل بچوں کے بارے میں تعلیم اور آگا ہی دی ہے، کیا ہم نے کبھی ان کو سکھایا ہے کہ محتاجوں اور محروم افراد کی کیا اہمیت ہے اور ہم کو ان سے کس طرح کا سلوک روا رکھنا چاہیے‘ ہم کس طرح ان کے بارے میں احساس کو پاکستانی معا شرے کا حصہ بنا سکتے ہیں۔

ہم کس طرح بے ضمیری اور خود غر ضی کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ کر ان کو قومی دھارے میں شامل کر سکتے ہیں‘ کس طرح ان کی بے پناہ صلاحیتوں سے ملک و قوم کیلئے فوائد حاصل کر سکتے ہیں‘ کس طرح ان کو احساس محرومی سے نکال کر معاشرے کا ایک اہم ستون بنا سکتے ہیں۔اس جدید دور میں بالآخر ہمیں اس بات کی اہمیت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ خدا کی کوئی تخلیق بھی بے معنی نہیں ہے،اس کا انصاف لازوال اور اعلیٰ ہے‘ وہ اگر انسان کو ایک نعمت سے محروم کرتا ہے تو دوسری کئی نعمتوں سے مالا مال بھی کر دیتا ہے،اگر ایک ہاتھ سے لیتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے اتنا عطا فرما دیتا ہے کہ انسان کے تصور میں بھی نہیں ہوتا۔


 اسلام نے تو معذور اور محتاج لوگوں کو بڑا خاص احترام دیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال وہ بزرگ شخص ہے جو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں آپ سے بات کرنا چا ہتا ہوں، اس وقت آپ قریش کے سرداروں کو دین حق کی دعوت دے رہے تھے۔ اس بزرگ نے پھر عرض کیا کہ اے نبی اللہ میں نابینا آپ کی خدمت میں اسلام کے بارے میں معلومات لینے کیلئے حاضر ہوا ہوں مجھے اللہ کا حکم سنائیے، تو آپ نے فرمایا ”انتظار کرو میں ذرا قریش کے سرداروں کو دعوت دے لوں“ تو اللہ رب العزت نے سورة عبس میں آپ کو فرمایا کہ ”آپ ترش رو ہوئے“ اتنی قدر اس نابینا شخص کی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرما دیا۔

ا سی طرح حضرت بلال حبشی جن کی اللہ اور اُس کے رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی نظر میں بہت عزت اور اہمیت تھی،آپ زبان کی لکنت کے باعث ”اشہد“ کی بجائے ”اسہد“ کا لفظ اذان میں استعمال کیا کرتے تھے اور جب کچھ مسلما ن بھائیوں نے اس پر اعتراض کیا تو آپ کے اذان نہ دینے کی وجہ سے صبح کی کرن تک نہ پھوٹی۔
 یہ مثالیں ہم سب کیلئے ایک سبق ہیں کہ ان معذور افراد کی عزت و تکریم کے علاوہ معاشرے میں ان کو یکساں مقام دیئے جانے کی اشد ضرورت ہے‘ کیا ہم نے پا کستان میں کبھی کوئی شاپنگ مال بناتے ہوئے ان معذوروں اور محتاجوں کا خیال رکھا ہے کہ وہ اس میں وہیل چیئر کے ساتھ کیسے داخل ہونگے؟ کیا کبھی ہم نے اپنی سڑکوں پر وہیل چیئر ز کے چلنے کیلئے کوئی جگہ مخصوص کی یا بنائی ہے؟ کیا ہم نے اپنے ملک میں ان افراد کیلئے خصوصی سکولوں کا جال بچھایا ہے؟ کیا ہم نے ان افراد کو کبھی نوکری کیلئے یکساں مواقع فراہم کئے ہیں؟ کبھی ہم نے ان افراد کی عارضی مدد کی بجائے مستقل امداد کیلئے سوچا ہے؟ ہم میں سے کتنے افراد ہیں جو ان معذور افراد پر ترس کرنے کی بجائے یکساں مقام دیتے ہیں۔

یقین کیجئے ان افراد کو ترس کی نہیں یکساں مقام اور مواقع کی ضرورت ہے۔کیا ہم نے ان افراد کیلئے حکومتی سطح پر کوٹے کی بجائے یکساں حقوق دینے کے بارے میں سوچا ہے؟کیا ان کے لیے ہم نے کبھی اپنے گھر‘ محلے‘ گلی کوچے‘ بازار‘ ریلوے سٹیشن‘ کیفے‘ سکول‘ دفاتر اور تفریحی مقامات پر کوئی خاص سہولت مہیا کی ہے؟ درحقیقت ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ہمیں ان افراد کیلئے کچھ الگ یا خا ص طور پر کرنا چاہیے‘ ان کے سینے میں بھی ہماری طرح ایک حساس دل ہے‘ یہ بھی ہماری طرح احساسات اور جذبات رکھتے ہیں‘ یہ بھی ہماری طرح ہی سانس لیتے اور زندہ لوگ ہیں‘ ان کو بھی ہمارے رویوں سے ٹھیس پہنچتی ہے‘ ان کو بھی د کھ اور درد ہوتا ہے‘ یہ نہ تو پتھر ہیں اور نہ ہی پتھروں کی بستی کے رہنے والے۔


 گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ لاہور میں میرے بہت پیارے دوست پروفیسر رؤف انگریزی کی تعلیم دیا کرتے تھے جو کہ نابینا تھے، ایک مدت ہوئی پردیس کو پیارے ہونے کے بعد ان سے ملاقات نہ ہوسکی‘ کبھی اگر آپ ان سے صرف ایک بار مل لیں تو آپ کو دوبارہ اپنا تعارف کروانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی‘ آپ کے ہاتھ کو چھو کر یا کبھی آپ کی آہٹ کو محسوس کرکے اور کبھی آپ کی خوشبو سے جان جانیوالے یہ شفیق دوست بلا کی ذہنیت رکھتے ہیں‘ یقین جا نیئے ان جیسے لوگ ملک و قوم کا سرمایہ ہیں۔


 پھر میرے انتہائی شفیق استاد برطانیہ میں پہلے مسلمان نابینا جج جناب امیر علی ماجدہ جو کہ میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں انسانی حقوق کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ امیگریشن کے جج بھی رہے، حقیقت میں ہمت اور اعلیٰ ظرفی کی بہترین مثال ہیں کہ جنہوں نے نابینا ہونے کے باوجود پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا اور اس کے علاوہ رواں سال ہی ایک پاکستانی طالب علم عرفان سے ملا قات ہوئی جو گونگا و بہرہ ہونے کے باوجود کبھی بھی تعلیم میں پیچھے نہیں رہا اس کی وجہ جب اُس نے مجھے بتائی تو میں حیران رہ گیا کہ جس کے بارے میں بہت حد تک تو جا نتا تھا مگر اس سے سن کر بہت اچھا لگا، مگر دوسرے ہی لمحے دل یہ سوچ کر اس قدر افسردہ ہوا کہ کاش یہ سب کچھ پاکستان میں پاکستانی معذور اور محتاج طالب علموں کو بھی میسر ہو۔


 عرفان نے بتایا کہ برٹش ڈیف فاؤنڈیشن کے صدر یا عہدیدار ہونے کی وجہ سے وہ بہت سے مسلمان ڈیف طلبہ کی مدد کرتا ہے ا س نے مزید کہا کہ جب اذان ہوتی ہے اور جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو اس وقت ہم( گو نگے اور بہرے) لوگ صرف اشاروں سے اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس نے کہاکہ کاش ہم بھی اس خوبصورت قرات کو محسوس کر سکتے‘ کاش!
 جب اس نے یہ سب کہا تو میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ میری کیا کیفیت تھی‘ میں پھر سوچ میں گم ہوگیا کہ ہم میں سے کئی ایسے مسلمان ہیں جو قرآن پاک کو کئی کئی دن تک کھولتے تک نہیں‘ اس کی قدر ان افراد سے پوچھی جائے جو سننے اور بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔

عرفان سے میں نے قرآن سے محبت سیکھی۔ اس نے مجھے مزید بتایا کہ وہ مترجم کو کسی بھی وقت حکومت کے خرچے پر اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں یہ سب کچھ مجھے مترجم کے ان اشاروں کا ترجمہ کرنے پر معلوم ہوا۔ پھر اس کے تعلیمی اخراجات‘ ر ہائش، میڈ یکل فری، کتا بیں، سفری اخراجات اور دیگر کئی سپیشل سہولیات سب حکومت کی طرف سے ہیں۔ اگرمعا ملہ بینا ئی کا ہو تو ان افراد کو گائیڈ ڈاگ مہیا کئے جاتے ہیں کہ جو باحفاظت ان کو گھر سے تعلیمی ادارے تک روزانہ لا تے اور لے جاتے ہیں۔


اس کے علاوہ ایک عظیم بر طا نوی سا ئنسدان سٹیفن کو کئی سال تک ویل چیئر اور جدید آلات کی مدد سے ریسرچ کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے فنڈ نگ اور تمام سہو لیات فراہم کی گئیں کہ جب تک وہ رحلت نہیں فر ما گیا۔ یہ ہے شیوہ زندہ قوموں کا، وہ اپنے ذ ہین افراد کی قدر اس طرح کرتے ہیں۔
 اب ذرا سوچیئے کہ ہم اپنے معذوروں اور محتاجوں کیساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔

کیا ہم ان کو کانا، بولا، لنگڑا، بینگھا،’ٹونڈا، بونااور موٹا جیسے القابات سے نہیں نوازتے۔ کس قدر ظا لم ہیں ہم، کس قدر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ ہم اپنے ہی ساتھ رہنے والے افراد کا دل توڑتے ہیں کہ جیسے ہمارے سینے میں دل موجود ہی نہیں۔
کیا ہم واقعی پتھر دل ہیں۔ کیا واقعی ہمارے پہلو میں دل نام کی کوئی چیز نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم کس طرح اتنے سفاک ہوسکتے ہیں مجھے تو لگتا ہے کہ ہم واقعی پتھروں کی بستی میں رہتے ہیں جہاں ہر شخص احساسات اور جذبات سے عاری ہے‘ جہاں ہر کوئی جگنو ں کی دم کاٹنے پر لگا ہے کہ ان کی روشنی کسی اور کو راستہ نہ دکھا دے۔

درحقیقت یہی معذور و محتاج لوگ اندھیرے میں ان جگنوؤں کی مانند ہیں جو دوسروں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے اُن کی راہنمائی کرتے ہیں۔ وہ سیدھا راستہ جو ہمیں خوف خدا سیکھاتا ہے، وہ سید ھا راستہ جو ہمیں دوسروں کا احساس سیکھاتا ہے، وہ سیدھا راستہ جو ہمارا دین دوسروں کے حقوق اور درس انسانیت سیکھاتا ہے۔
کاش کہ ہماری قوم کا نقطہ نظر بھی تبدیل ہوجائے،کاش ہم بھی اس روشنی کو محسوس کر سکیں جو یقینا یہیں کہیں ہمارے پہلو میں موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :