سقوط ڈھاکہ اور البدر

بدھ 30 دسمبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

اسی ماہ 16دسمبر کے المناک دن جو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے یہ وہ افسوسناک دن کہ جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا اور سانحہ پشاور میں ہمارے بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا۔ مجھے آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہو یا میرے دل کے دو ٹکرے کر کہ اس کی دھڑکن کو ہمیشہ کے لئے ساقط کر دیا ہو ان دونوں واقعیات کا دل پر بڑا گہرا اثر بھی ہے اور دکھ بھی، اُن معصوم بچوں نے تو زندگی کی چند بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں کہ خزاں نے ڈیرے ڈال لیے مگر ہم اس سیاہ دن کو کبھی نہیں بھولیں ، اُن شہیدوں کے لہو سے جو چراغ روشن ہوئے ہیں اُ نھیں کبھی بجنے نہیں دیں ۔


دوسری طرف وہ بنگالی مسلمان جو پاکستان کے چاروں صوبوں سے جغرافیائی طور پر بہت دور تھے،  جن کی زبان ، تہذیب ، طرز بودباش ، رہن سہن، قد کاٹھ ، رنگ و نسل  حتیٰ کہ ان کی خوراک تک مختلف تھی مگر  کیونکر ان بنگالی مسلمانوں نے یک زبان ہو کر قائد اعظم رحمتہ اللہ کی آواز پر لبیک کہا اور اُن کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر تاریخ رقم کر دی، بنگالی مسلمانوں نےالگ وطن کے قیام کےلئے ہمارے شانہ نشانہ کھڑے ہو کر اخوت ،  بھائی چارے و کلمہ گو ہو نے کا حق ادا کر دیا ، لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستان کی آبیاری کے لئے اپنے پاک لہو کا خراج پیش کیا۔

(جاری ہے)

مگر نہ جھکے اور نہ ہی بکے ان بنگالی مسلمانوں نے اپنی محنت و لگن سے تقسیم ہند سے قبل ہی ڈھاکہ کو کامیابی و ترقی کے اعلی مقام پر پہنچا دیا تھا یہاں تک کہ قائد اعظم رحمتہ اللہ نے اپنی وکالت کے کئی قیمتی سال ڈھاکہ میں گزارے ، اس دور میں صنعت و تجارت میں بھی بنگال اپنی مثال آپ تھا۔ مگر ایسا کیا ہوا کہ پوری بنگالی قوم اغیار کے ہاتھوں میں کھیلنے لگی ۔

میرے خیال میں یہ جہاں اغیار کی چالوں کا شاخسانہ تھا وہیں پر اپنوں کی خود پرستی، خود پسندی اور مجرو شخصیات کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اُدھر تم ادھر ہم کی بات کرنے والے تو جہان فانی سےکوچ کر گئے مگر پاکستان کا فخر بنگال پاکستان سے جدا ہو گیا۔
مکتی بانی کے خلاف سینہ سپر ہونے والی البدر پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھی کہ جس کے ایک ایک نوجوان نے پاکستان کی حفاظت کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی۔

میجر رٹائر ریاض حسین ملک نے اپنے بہت سے انٹرویوز میں البد ر و الشمس کے باکردار نوجوانوں کی منظر کشی  ایک انتہائی بہادر و دلیر، با وقار و باو فا ، جذبہ حب الوطنی سے  سرشار عظمت کے مینار کسی طور بھی خدا کی راہ میں  لڑنے والے کسی سپاہی سے کم نہیں تھے اس کے بعد کیپٹن عبدالکریم کے بھی ان نوجوانوں کے بارے میں اسی طرح کے ریمارکس دئیے تھے۔


پاکستان کی تاریخ میں بنگالی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شنگھو نے البدر و الشمس کی شکل میں اپنے جوانوں کو تربیت دی جہنوں نے پاکستان کی حفاظت کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔
 آج بھی اسی تنظیم سے فارغ و تحصیل طلبہ جو تحریک اسلامی کا  ہرول دستہ تھے  جن میں مطیع الرحمن نظامی ، عبدالقادر ملا ، علی حسن مجاہد، قمرالزماں ، غلام اعظم ، دلاور حسین سعیدی اور صلاح الدین چوہدری کے علاوہ بے شمار گمنام سپاہی شامل ہیں ۔

جہنوں کنے پاکستان سےمحبت کا حق ادا کردیا حتٰی کہ موجودہ بنگالی حکومت نے  اُسی دور کے اسلامی چھاترو شنگھو کے لیڈرز  کو چن چن کر ۱۹۷۱ میں پاکستان کا ساتھ دینے پر حال ہی میں پھانسی پر لٹکا دیا۔ مگر ان پاکستان کی خاطر پھانسی پر جھول جانے والے البدر کے مسلمانوں نے نہ تو اپنے کیے پر افسوس و ندامت کا اظہار کیا اور نہ ہی مقدمات اور جیلوں سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہوئے۔

یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جان جان آفری کے سپرد کر دی لیکن نہ پاکستان کی محبت میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی وفا میں کوئی تعطل آڑے آیا۔
دشمن نے اُس وقت بھی لسانی بنیادوں پر ملک کو تقسیم کیا اور آج بھی وہ اسی کوشیش میں ہے کہ پاکستان کی اساس کو ضرب پہنچا کر وطن عزیز کو نقصان پہنچایا جائے مگر وہ یہ بھول چکا ہے کہ اس ملک کی بنیادوں میں جن شہیدوں کا لہو ہے وہ اس کی سلامتی کی ضمانت ہے۔ اب قوم دشمن کی چالوں سے آشنا ہو چکی ہے پاکستانی قوم کا آپسی بھائی چارہ، محبت و اخوت پاکستان کی اصل جان ہے جو انشا اللہ ہمیشہ پاکستان کو آباد و شاد رکھے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :