"ناظرین کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے"

پیر 6 جولائی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

خان صاحب کے چاہنے والے ہمیشہ اِس بات پر گِلا کرتے نظر آتے ہیں کہ خان صاحب کو ٹیم اچھی نہیں ملی کیونکہ عمران خان صاحب کی ٹیم کی کارکردگی مایوس کُن ہے لیکن خان صاحب کی نیت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ خود ایماندار ہیں اور بہترین کھیل پیش کر رہے ہیں۔ایسا کہنے والے ناجانے کیا سوچ کر ایسا کہ رہے ہوتے ہیں یا تو انہیں اِس بات پر یقین ہے کہ خان صاحب اکیلے ہی سب کچھ بہتر کر لینگے یا وہ سیاست سے بالکل ناواقف ہیں ۔


عمران خان کا کرکٹ کے میدانوں میں اپنا نام تھا اور اُن کی کپتانی میں پاکستان نے 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ بھی جیتا ۔وہ کرکٹ کے گُر بہترین طریقے سے جانتے تھے انہیں معلوم تھا کہ اکیلا کپتان کچھ نہیں کر سکتا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ایک کھلاڑی اکیلا ٹیم کو کبھی بھی نہیں جتوا سکتا ۔

(جاری ہے)

اگر کپتان ایمانداری سے بیٹنگ کرتا بھی تو اُسے اپنے کھلاڑیوں کی بہترکارکردگی کی ضرورت پڑتی ہےکیونکہ ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں ہر کھلاڑی اپنا کردار ادا کرتا ہے، کوئی بیٹنگ میں اپنی مہارت دکھاتا ہے تو کوئی باؤلنگ میں، تبھی جا کر اِن سب کی مشترکہ کارکردگی کے مطابق ٹیم جیت پاتی ہے لیکن خان صاحب یہ سب جاننے کے باوجود بہتر حکومتی ٹیم بنانے میں ناکام رہے ۔

ٹیم کی سلیکشن خود خان صاحب نے ہی کی۔ جو کھلاڑی عمران خان صاحب نے سلیکٹ کیے یہ وہی کھلاڑی تھے جو باقی ٹیموں میں بھی بہترین کارکردگی نہ دکھا سکے.(میری یہاں ٹیموں سے مراد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہیں) لیکن عمران خان صاحب نے اِن کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں یہ سوچ کر لیا کہ اگر کپتان بہتر ہو تو نیچے خود بخود بہتری آتی ہے لیکن ایسا بلکل بھی نہیں ہوا۔

نہ کپتان بہتری دکھا رہے ہیں اور نہ ہی دیگر کھلاڑی ،تو اب اِس ساری صورتحال میں کپتان کے علاوہ صرف باقی کھلاڑیوں کو حکومتی ٹیم کی ناکامیوں پر قصوروار ہرگز نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ ٹیم کپتان نے سلیکٹ کی نہ کہ کسی اور سلیکٹر نے ۔یا تو خان صاحب اِس بات کو مان لیں کہ سلیکٹر کوئی اور ہےجس نے انہیں ایسی ٹیم سیلیکٹ کر کے دی جو اِن ناکامیوں اور بری کارکردگی کا ذمہ دار ہے یا اپنی ناکامیوں کو خود سر خم تسلیم کریں اور یا تو خود کپتانی سے استعفیٰ دیں۔

اگر کپتان یہ نہیں کر سکتا تو ٹیم بدلے اگر مسلسل ٹیم بدلنے سے بھی بہتری نہیں آ رہی تو کپتان اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرتے ہوئے خود استعفیٰ دے اور گھر جائے تاکہ اِن سے کوئی بہتر کپتان آ سکے۔اگر عمران خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے مدِ مقابل اُن جیسا اور کوئی بہتر کپتان نہیں تو پھر ایسی بہترکپتانی کی کارکردگی کہاں ہے۔؟؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتاکہ کپتان کے مدِمقابل اور کوئی کپتان ہی نہ ہو۔

ہمارے ملک میں ایسے کئی بڑے نام ہیں جو سیاست میں کپتان بننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں کیونکہ اِس سے پہلے وہ کبھی بھی کپتان نہیں بنے۔اُن کی اہلیت کا اندازہ تو تبھی لگایا جا سکے گا جب وہ ٹیم کے کپتان بنیں گے اور ملک کی نمائندگی کریں گے ۔
ایک طرف خان صاحب کے چاہنے والے ناکام ٹیم کا گلہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف انہیں اِس بات کا بھی شکر ادا کرنا چاہئے کہ عمران خان کو اپوزیشن بہت اچھی ملی ہے وہ اِس لیے کیونکہ حکومتی ٹیم اپوزیشن سے ہر میچ باآسانی جیتتی آ رہی ہے اِس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ کپتان کی ٹیم اچھی ہے بلکہ اپوزیشن کی ٹیم یہ چاہتی ہی نہیں کہ وہ فی الحال حکومتی ٹیم سے کوئی میچ جیتے ۔

اِس بات میں اپوزیشن کو فائدہ لیکن حکومت کی ٹیم کو نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے جس کا فائدہ اپوزیشن ٹیم آنے والے دنوں میں اُٹھائے گی۔جب حکومت کی ٹیم اپنی خوش فہمیوں اور نالائقیوں کے جال میں مکمل پھنس جائے گی تو اپوزیشن کی ٹیم میدان میں اُترے گی اور میچ باآسانی جیتنے میں کامیاب ہو گی۔ کچھ لوگوں کو میں نے یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ خان صاحب نے اپوزیشن ٹیم کو زیر کرتے ہوئے بجٹ اجلاس باآسانی منظور کروا لیا۔

میرا نہیں خیال کہ اِس میں حکومت کی ٹیم کی کوئی کامیابی ہے بلکہ اپوزیشن کی ٹیم یہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ حکومت سے یہ میچ جیتے ۔اگر اپوزیشن یہ میچ جیتنا چاہتی تو باآسانی جیت بھی سکتی تھی لیکن اپوزیشن نے حکومت کی ٹیم کو کھُل کر کھیلنے کا موقع دیا اور حکومت کی ٹیم یہ میچ باآسانی جیت گئی لیکن دوسری طرف اپوزیشن کے بہت سے کھلاڑی بھی چُپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں اور ایک عرصے سے سیاست کے میدان سے باہر ہیں حکومت کے کھلاڑی اور تماشائی انہیں کئی بار وقتاً فوقتاً میدان میں آ کر کھیلنے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں لیکن اپوزیشن اراکین اِن کی یہ پیشکش کئی بار ٹھکرا چکے ہیں اور میدان میں نہیں آ رہے اِس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو اپوزیشن کے یہ کھلاڑی ابھی تیار نہیں ہیں کہ وہ حکومتی ٹیم سے مقابلہ کر سکیں یا پھر وہ بھرپور تیاریوں میں مگن ہیں اور مکمل تیاری کے بعد ہی حکومتی ٹیم اور کپتان سے ٹکرائیں گے۔

ناظرین کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کیونکہ اِس وقت میچ کا امپائر بھی حکومتی ٹیم سے سخت ناراض ہے۔ 2018 میں کھیلا گیا میچ تو اسی امپائر ہی کی مرہونِ منت عمران خان صاحب نے جیت لیا تھا۔ امپائر یہ چاہتا تھا کہ اِس بار تبدیلی آئے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے دو ٹیمیں ہی میدان میں مقابلہ کرتی تھیں ایک جیتتی تو دوسری ہار جاتی اسی طرح اِن دونوں میں باریاں لگی ہوئی تھیں ۔

اِس بار تیسری ٹیم کے آنے سے حالات قدرے مختلف ہیں ۔اگر میچ امپائر نے کپتان کے آؤٹ ہونے پر انگلی کھڑی کر بھی دی تو باقی کلاڑی میچ کھیلتے رہینگے۔لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی ٹیم کے باقی کھلاڑیوں میں اتنی سکت ہے کہ وہ اپوزیشن سے میچ جیت سکیں تو ایسا بلکل بھی نہیں اِس لیے حکومت کی ٹیم اِس وقت شدید مشکلات میں ہے اگر کپتان کھڑا رہا تو ٹیم کی پوزیشن کمزور ہو گی اگر آؤٹ بھی ہو گیا تو حکومتی ٹیم مکمل میچ ہار جائے گی اِس لیے اپوزیشن کی ٹیم اِس وقت خاموشی سے اپنے پنجے گاڑھ رہی ہے اور کامیابی کی طرف گامزن ہے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :