"خوشامدیوں کا دربار"

جمعہ 15 جنوری 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

کسی بھی سماج کا کلچر اُس کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اگر کلچر معیاری نہیں ہے تو وہ سماج کبھی بھی ترقی یا خوشحالی کے سفر پر گامزن نہیں ہو سکتا، دنیا کے بہت سے ممالک کی تاریخ اُٹھا کر دیکھی جائے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ خوشامد کا کلچر دنیا میں بہت پرانا ہے،صدیوں پہلے بادشاہ کے دربار میں اُس کے درباریوں کی قابلیت کا پیمانہ خوشامد ہی ہوا کرتا تھا اور دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ کلچر آجبھی عام ہے
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو قیامِ پاکستان سے لے کر آجتک خوشامد کا کلچر موجود ہے۔

سیاست سے لے کر سماج تک، تعلیمی اداروں سے لے کر وفاقی اداروں تک، یعنی کہ ہر جگہ خوشامد کو ہی قابلیت اور ادب گردانا جاتا ہے، شاعر نے خوشامدی کلچر کو شاعرانہ انداز میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ!
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
خودی والے رہے، خودی خودی کرتے
ہماری سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب حکومتی ایوانوں یا پنچوں پر وہی لوگ ہی بیٹھے جنھوں نے ہر لحاظ سے خوشامد کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا ، ذولفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک بےشمار وزراء یا مشیر ایسے گزرے جنھوں نے خوشامد کے بل بوتے پہ اپنا حکومتی وقت تو پورا کیا لیکن وہ اُس عہدے کے ہرگز قابل نہ تھے جس بنا پر سیاسی کلچر تو تباہ ہوا ہی لیکن حکومت چلانے کی صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ملک کا کافی نقصان بھی ہوا، ہماری سیاسی جماعتوں کا یہ المیہ بھی رہا ہے کہ اختلافات رکھنے والے شخص کو یا تو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر اُس کی پارٹی میں کبھی وہ جگہ نہیں بن سکتی جو ایک جی حضوری کرنے والے کی ہوتی ہے، یہاں اختلافات کی نوعیت دیکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے اور ہمارے میڈیا کا رویہ بھی، کیونکہ بعض اوقات پارٹی میں کسی بھی کارکن کے اختلافات اِس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ اُسے پارٹی سے مزید ٹوٹ پھوٹ بچانے کے لئے نکالنا ہی پڑتا ہے اور ہمارے میڈیا کا اِس حوالے سے رویہ انتہائی مایوس کن رہا ہے کیونکہ میڈیا اختلافات کو ہمیشہ اپنی پوائنٹ سکورنگ کے لئے ہی استعمال کرتا ہے اِس لیے اگر اختلافات جائز بھی ہوں تو اُن میں شدت آ جاتی ہے اور اختلافات رکھنے والے شخص کو جب میڈیا پر بے تحاشا کوریج مل رہی ہو تو وہ پارٹی اصولوں کو یکسر بھول جاتا ہے یا مخالفین اِس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اِس ساری صورتحال میں خوشامدی ٹولہ بھی باہر نکلتا ہے اور اپنے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے خوشامدی طریقوں کو اپناتا ہے، حال ہی میں اِس کی ایک واضح مثال موجود ہے کہ جب کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر حملہ ہوا تو وزیراعظم عمران خان کے دو ترجمانوں کے مابین ٹھن گئی، ندیم افضل چن جو ایک پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان تصور کیے جاتے ہیں، انھوں نے ایک ٹویٹ کی کہ‏ اے بے یار و مدد گار معصوم مزدوروں کی لاشو۔

(جاری ہے)

۔۔میں شرمندہ ھوں، جس کے جواب میں شہباز گل نے درباری رویہ اپناتے ہوئے ٹویٹ داغ دیا اور ندیم افضل چن کی بات کی نفی کی یعنی کہ اگر کوئی سچ اور حق کا دامن تھام کر چلنے کی کوشش بھی کرے تو وہ خوشامد پسندوں کے سامنے بےبس ہی ہو جاتا ہے، وزیراعظم نے بھی ایک تقریب میں شہباز گل کے بیان کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ جسے پارٹی پالیسی سے اختلاف ہے وہ جا سکتا ہے، شاید وزیراعظم عمران خان یہ بات ندیم افضل چن کو کہ رہے تھے جس کو بھانپتے ہوئے چن صاحب نے وزیراعظم کی ترجمانی سے استعفیٰ دے دیا یوں خوشامدی ٹولہ یہاں بھی جیت گیا اور حق بات کہنے والا ہار گیا، یہ صرف ایک جماعت کا حال نہیں بلکہ اِس سے ہٹ کر بہت سی مثالیں موجود ہیں جب ہم خوشامد میں اِس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ واپسی کا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے، ماضی میں پیپلزپارٹی کے ایک سینیئر عہدیدار نے ذولفقار علی بھٹو کی محبت میں اُنہیں چاند کہ ڈالا اور کہا کہ ہم عوام چاند کی کرنیں ہیں، ذولفقار علی بھٹو پھول ہیں اور ہم اِس پھول کی خوشبو ہیں، یقیناً یہ محبت کا اظہار بھی ہو سکتا ہے لیکن اِس محبت کے پیچھے چھپی خوشامد سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، برصغیر میں خوشامدی کلچر ہمیں وراثت میں ملا ہے جب یہاں کے لوگ بادشاہت اور کالونیل  سامراجیت کے زیرِ اثر رہے جب خوشامد کرنے والے کو بادشاہ کے دربار میں اعلیٰ عہدے دیے جاتے، جاگیریں الاٹ کی جاتیں، وہی سوچ نسل در نسل پنپتی رہی اور آج بھی ہم خوشامد پسندوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، وہی آگے آ سکتا ہے یا چل سکتا ہے جو خوشامد کرنے میں ماہر ہو، آخر کب تک ہم خوشامد پرستی کا بھوت خود پر سوار رکھیں گے، اگر یہی روایت برقرار رہی تو دنیا کی کوئی طاقت بھی ہمیں زوال پذیر ہونے سے روک نہیں سکتی۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :