
کورونا وائرس۔۔۔۔خوف،ڈر اور بے حس عوام
منگل 31 مارچ 2020

شیراز احمد شیرازی
(جاری ہے)
یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد کی دنیا ایک مختلف دنیا ہوگی۔یقیناََ کورونا وائرس ایک نئے عہد کو جنم دے رہا ہے یہ عہد کیسا ہوگا، اس کے خدوخال سے متعلق یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اب انسان کا رہن سہن، سوچ، عقیدے، معاشرت سمیت ہر چیز بدل جائے گی۔
مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں اتنی ہلاکتوں کے بعد بھی لوگ کورونا کومہلک وباء تسلیم نہیں کررہے، نہ ہی احتیاطی تدابیر کا کثرت سے استعمال کررہے ہیں اور نہ ہی گھروں میں رہ کر کورونا وائرس کی مزید پھیلاو کو روکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو آج بھی اس وباء کے حوالے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ان کیلئے مولانا رومی کی یہ حکایت موجودہ حالات میں سمجھانے کیلئے کافی ہے، ایک شخص طوفان کی آمد کے پیش نظر ایک درخت کے پیچھے پناہ لئے کھڑا تھا ایک دوسرا شخص پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میاں جب طوفان آتا ہے تو بجلی گرنے کا امکان درختوں پر زیادہ ہوتا ہے اس لئے یہاں سے ہٹ جاو،اس نے جواب دیا کہ میرا رب میرا مالک ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرا شخص وہاں سے گزرا اس نے بھی یہی نصیحت کی تو درخت کے پاس کھڑے شخص نے پھر وہی جواب دہرایا۔ آخر کار ایک تیسرا بندہ گزرا اس نے بھی یہی کہا مگر وہ آدمی بضد تھا کہ میرا رب میرا مالک ہے۔ غرض طوفان آیا، بجلی گری اور وہ آدمی فوت ہوگیا۔ یہ سارا منظر ایک بندہ خدا دیکھ چکا تھا اس نے کہا کہ اس بندے کو اللہ پر اس قدر پختہ ایمان تھا تو پھر اللہ نے اسے کیوں نہیں بچایا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ وہ تین بندے اللہ نے ہی بھیجے تھے کہ اپنے آپ کو بچاو مگر اس بندے نے کہنا نہ مان کر خود اپنے آپ کو تباہ کیا۔ آج کل کے حالات میں مولانا کے اس حکایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور اٹلی،ایران اور سپین جیسے ممالک سے عبرت کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت واحد حل احتیاط ہے۔ اگر احتیاط کی جائے تو نہ صرف خود کو بچایا جاسکتا ہے بلکہ اپنے ساتھ دیگر بہت سی زندگیوں کو محفوظ بنا یا جاسکتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیائی یلغار کے اس دور میں بھی عوامی سطح پر ابھی تک لوگوں کو یہ بات نہیں سمجھائی جاسکی کہ کورونا وائرس کیا ہے اور اس کا پھیلاؤ کیسے ہوا۔ چونکہ عوام ان بنیادی حقائق سے لاعلم ہیں لہٰذا یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔ دیگر ممالک میں ایسے مواقعوں پر عوام کی معلومات کا ذریعہ حکومت کی جانب سے دی گئی مستند انفارمیشن ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ فرض واٹس ایپ اور فیس بک کے خود ساختہ دانشور ادا کرتے ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ جیسے بندر کے ہاتھ میں استرے کا تصور نہایت خوفناک ہوتا ہے، ایسے ہی کسی کم علم کے ہاتھ فیس بک اور واٹس ایپ کی سہولت بھی خوفناک صورت اختیار کررہی ہے۔ جہاں جس کا جو دل میں آئے لکھ ڈالتا ہے اور عوام اسے پھیلانے اور ماننے کو اپنا فرض عین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یوں کبھی کورونا یہودیوں کا مسلمانوں کے مصافحہ پر وار ٹھہرتا ہے تو کبھی دنیا کی آبادی کو کم کرنے کیلیے ایجنسیوں کا کھیل۔ حکومت کا پہلا کام جھوٹی خبروں کو روکنا اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے حقائق کا پروپیگنڈا کرنا ہے، تاکہ عوام کو من گھڑت باتوں پر یقین کرکے پریشان ہونے سے روکا جاسکے۔
کہتے ہیں کہ حادثات ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ سوچ ہے کہ حادثات ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہمارے بیشتر عوام آج بھی اس مہلک مرض کو اپنے گھر آتا نہیں دیکھ رہے۔ یہ بات تب تک اچھی ہوتی جب تک اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاچکی ہوتیں اور پھر مزید اسے سر پر سوار نہ کیا جاتا۔ کورونا کے سوال پر عوامی جواب یہ ہے موت جب آنی ہے تب آئے گی۔ یہاں فرض ہمارے دینی رہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں کا بنتا ہے کہ عوام کو تقدیر اور اللہ پر توکل کے ساتھ تدبیر کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا جائے۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ جہاں اللہ نے اس پر یقین کا حکم دیا ہے، وہیں اللہ نے جسم کو اس کی امانت اور اس امانت کی حفاظت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ ہم اتنے بے حس ہیں کہ ہمارے ہاں یہ چلن بن چکا ہے کہ جب بھی کوئی بحران سراٹھاتا ہے،مختلف مافیازلوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ایک طرف ملک میں کورونا وائرس بے لگام ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے ماسک اور دیگر اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کردی ہے۔نجی ہسپتالوں، پرائیوٹ کلینکس اور لیبارٹریوں نے ٹیسٹوں کی فیس میں بھی ہوشر با اضافہ کر دیاہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان بے حس افراد کے خلاف فوری سخت کارروائی کرے۔ پوری دنیا متحد ہو کر کورونا کا مقابلہ کررہی ہے لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے اس کو کمائی کا بہترین موقع بنالیا ہے۔ اس وبا سے گھبرانے کی نہیں بلکہ احتیاطی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شیراز احمد شیرازی کے کالمز
-
بدقسمت بٹگرام کا خادم ۔۔۔۔ فیاض محمد جمال خان اور ان کے کارنامے
منگل 4 جنوری 2022
-
16 دسمبر 2014۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک منہوس دن
بدھ 16 دسمبر 2020
-
نواز شریف ، آیت اللہ خمینی اور تاریخ سے نابلد سیاستدان
پیر 12 اکتوبر 2020
-
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں چلیں گی ۔۔۔۔ مگر؟
جمعہ 28 اگست 2020
-
یاسر حمید ہم شرمندہ ہیں.!
پیر 1 جون 2020
-
عمراں خان کی دیانت داری۔۔۔۔اور مولانا طارق جمیل
اتوار 26 اپریل 2020
-
آن لائن کلاسز۔۔۔ طلباء پر ایک پر بوجھ
منگل 7 اپریل 2020
-
ہم اور دنیا ۔۔۔۔۔کورونا کے بعد
ہفتہ 4 اپریل 2020
شیراز احمد شیرازی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.