نواز شریف ، آیت اللہ خمینی اور تاریخ سے نابلد سیاستدان

پیر 12 اکتوبر 2020

Sheraz Ahmad Sherazi

شیراز احمد شیرازی

20  ستمبر کو اسلام آباد میں پاکستان پیپلزپارٹی کی زیر قیادت آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں اپوزیشن کی مختلف جماعتوں نے شرکت کی ۔کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم)، جمعیت اہلحدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما شریک ہوئے۔

آل پارٹیز کانفرنس علاج کے غرص سے لندن میں موجود مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا۔کھانے کے وقفے کے دوران نواز شریف کے داماد اور سابق رکن پارلیمنٹ کیپٹن صفدر سے ملاقات ہوئی ،میں  نے بھی صحافتی ذمہ داریاں  ادا کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا نواز شریف وطن واپس آئینگے ؟ انہوں نے یک دم سے جواب دیا ، نہیں۔

(جاری ہے)

۔!  اب وہ نواز شریف نہیں بلکہ آیت اللہ خمینی بن کر وطن واپس آئنگے ۔یہ بات مجھ سے ہضم نہ ہوسکی۔ میں حیران تھا کہ کیسے موصوف نے  میاں نواز شریف کو حال کا آیت اللہ خمینی قرار دیا‘مجھے علم نہیں کیپٹن صفدر صاحب نے تاریخ کی کون سی کتاب پڑھی اور ایرانی انقلاب کے مختلف مراحل سے کس حد تک واقف ہیں؟ مگر ان کے بیان سے عیاں ہے کہ وہ آیت اللہ خمینی کی جدوجہد سے واقف نہیں ‘کچھ جانتے تو یہ درفنطنی نہ چھوڑتے۔

میری انٹرویو کی وہی شارٹ کلپ جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ، یہاں تک کہ  سماء ٹی وی نے اپنے مشہور پروگرام نیوز بیٹ میں بھی دو بار وہ ساٹ چلوائی ۔ پروگرام کے مہمانان فواد چوہدری اور سینئر صحافی سلیم بخاری نے کیپٹن صفدر کی اس احمقانہ بات پر خوب طنز کئے ۔۔ میں ابھی بھی شش و پنج میں مبتلا ہوں کہ کیپٹن صفدر نے آخر کس بنیاد پر نواز شریف کا مواذنہ آیت اللہ خمینی سے کیا ۔

حالانکہ موصوف بخوبی جانتے ہونگے کہ آیت اللہ خمینی  نہ تو اشتہاری مجرم قرار پائے تھے اور نہ بیان خللفی لے کر علاج کی عرض سے ملک سے بھاگے تھے ، نہ ان کے بیرونی ملک آف شور کمپنیاں تھیں  ،  نہ ان پر مالی کرپشن کا دعویٰ تھا  اور نہ وہ 25 کنال کی زمین میں رہتے تھے ۔ امام خمینی جنرل ضیاء الحق کا ہاتھ پکڑ کر سیاست میں نہیں آئے تھے۔ امام خمینی نے کسی جنیجو کی پھیٹ میں چھرا نہیں گھونپا تھا ، ان کے ایون فیلڈ فلیٹس نہیں نکلے تھے ، ان کا نام کسی پانامہ لیکس میں نہیں آیا تھا ، ان کیلئے  آلو گوشت کی فضائی کیٹرنگ نہیں ہوتی تھی ، امام خمینی کی منی ٹریل نہیں غائب ہوئی تھی ، امام خمینی صاحب کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار نہیں دیا ، احتساب عدالت نے کرپشن پر سزائیں نہیں سنائی ،امام خمینی جعلی قطری حط نہیں لائیں ،وہ موروثی سیاست دان نہیں تھے ، انہو ں نے کبھی سیاست کو کاروبار کا زریعہ نہیں بنایا وہ نظریاتی سیاست دان تھے ، ۔

۔امام خمینی نے اپنی انا کے خاطر اپنی فوج سے جنگیں نہیں لڑی تھی ، میاں نواز شریف کو اس ملک کے ’’باشعور عوام‘‘ نے تین بار وزیر اعظم کے منصب پر فائز کیا‘ ہر بار اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر وہ ایوان اقتدار سے نکلے ۔ اب تو حد یہ ہے کہ وہ سیاست دان سے امام بھی بن گئے ۔ آیت اللہ خمینی نے رضا شاہ سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کیا نہ عراقی حکومت کی دعوت پر رضا کارانہ جلا وطنی اور بغداد کے کسی محل میں قیام کو ترجیح دی۔

العرض امام خمینی جیسے عظیم شخصیات صدیوں بعدپیداہوتے ہیں تاریخ کی کتابوں کے مطابق آیت اللہ خمینی نے شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کے خلاف جدوجہد قم کے حوزہ علمیہ سے شروع کی ۔شاہ ایران ان دنوں امریکہ و یورپ کی آنکھ کا تارہ تھا‘اس قدر طاقتور کہ خلاف زبان کھولنا اپنے آپ کو موت کے مُنہ میں دھکیلنے کے مترادف ‘آیت اللہ نے شاہ ایران کی آمرانہ پالیسیوں اور مذہب گریز اقدامات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو مذہبی طبقے سے زیادہ ڈاکٹر علی شریعتی جیسے دانشوروں اور مہدی بارزگان مزاج کے سیاسی کارکنوں نے ان کا ساتھ دیا۔

اس وقت تک خمینی آیت اللہ تھے نہ ان کے نام کے ساتھ امام کا لاحقہ لگا تھا۔خمینی کی جدوجہد اس قدر جاندار ‘اثر انگیز اور مقبول تھی کہ شاہ نے انہیں ریاست کا باغی اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر نہ صرف گرفتار کیا بلکہ عدالت سے سزائے موت دلوائی‘دوران مقدمہ آیت اللہ خمینی کو مختلف نوعیت کی پیشکشیں ہوتی رہیں‘ مگر اس مرد درویش نے ہر ترغیب اور دباو  کا جواب نفی میں دیا‘ ایران کے علماء نے سزائے موت سے بچانے کے لئے خمینی کو آیت اللہ کے منصب پر فائز کر دیا‘ تنگ آ کر ایرانی آمر نے آیت اللہ کو زبردستی جلا وطن کر دیا اور یوں وہ بغداد جا بیٹھے‘عراقی حکومت نے بھی انہیں اس وقت تک برداشت کیا جب تک ایران نے تعلقات توڑنے کی دھمکی دے کر انہیں بغداد بدر کرنے پر مجبور نہ کر دیا۔

جلا وطنی اور انقلابی جدوجہد کے دوران آیت اللہ خمینی کا ایک صاحبزادہ ساواک کے ہاتھوں موت سے ہمکنار ہوا۔ بغداد سے پیرس پہنچ کر آیت اللہ کی جدوجہد مزید زور پکڑ گئی اور حالات یہاں تک بگڑے کہ عوام کا غصّہ ٹھنڈا کرنے کے لئے شاہ ایران اقتدار شاہ پور بختیار کے حوالے کر کے بیرون ملک چلا گیا۔ خیال یہ تھا کہ شاہ پور بختیار جو بہتر سیاسی ساکھ کا حامل گردانا جاتا تھا ملکی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب رہے گا مگر آیت اللہ خمینی نے شاہ پور بختیار کے اقتدار کو شہنشاہیت کا تسلسل قرار دے کر عوام کو جدوجہد جاری رکھنے کی تلقین کی اور خود تہران آنے کا فیصلہ کر لیا۔

شہنشاہ ایران کی جلا وطنی کے بعد عوام کی جدوجہد مزید زور پکڑ گئی‘ کاروبار زندگی معطل ہوا اور حکومتی رٹ مفقود۔شاہ پور بختیار نے اعلان کیا کہ اگر آیت اللہ خمینی نے ایران میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو فضا میں میزائل مار کر بھسم کر دیا جائے گا۔ شاہ پور بختیار نے یہ بھی اعلان کیا کہ کوئی فضائی کمپنی آیت اللہ خمینی کو اپنے طیارے میں سوار کرنے کا رسک نہ لے۔

افسوس صد افسوس کہ رکن  پارلیمنٹ  بھی تاریخ سے نابلد ہے  اور قائد کی محبت میں کیا کیا بونگیاں ماررہے ہیں ۔ اپنے لیڈر کے بارے میں حسن ظن رکھناہر سیاسی کارکن کا حق ہے اور چاپلوسی ہماری سیاست کی دیرینہ روایت مگر میاں نواز شریف کو آیت اللہ خمینی قرار دینا‘ خود میاں صاحب سے ناانصافی ہے ۔کیپٹن صفدر نے خمینی  کا نام ضرور سنا ہوگا مگر ان کا  نواز شریف سے موازنہ ؟سمجھ سے بالاتر ہے ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :