
ہم اور دنیا ۔۔۔۔۔کورونا کے بعد
ہفتہ 4 اپریل 2020

شیراز احمد شیرازی
ایک طرف اگر دیکھا جائے تو ارنا کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے مرکز چین میں زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آرہی ہے۔
(جاری ہے)
چین میں وبا کا مرکز شہر ووہان رہا تھاجہاں اب رفتہ رفتہ طبی عملے پر دباؤ کم ہوتا جارہا ہے اور وہاں کے لوگ اب 2 ماہ بعد قرنطینہ سے باہر آ گئے ہیں اور شہروں میں سفری پابندیاں ختم اور سرگرمیاں بحال ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ۔
مگر یہاں سے پھیلنے والا یہ سمارٹ وائرس نہایت ہی قلیل وقت میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر کرہ ارض پر خوف و ڈر کی فضا کی قائم کرچکا ہے ۔ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ یہ وباکب ختم ہوگی ؟اور اس کے خاتمے کے بعد کی دنیا کیسی ہوسکتی ہے؟مگردنیا پہلے جیسی رہے گی یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔مگر بہت سی تبدیلیاں ممکن ہیں کہ واقع ہوسکے ۔صحت،سیاست، معیشت سمیت رہن سہن کے طور طریقے اور رسم و رواج میں بھی بدلاو آ سکتا ہے۔سیاحت کی بحالی متاثر ہو نے کا خدشہ ہے۔آمدورفت میں فرق پڑ سکتا ہے۔خودکارسازی اور’ ورچوئلازیشن ‘کے رجحان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔اس وبا نے جہاں زندگیوں کو بکھیر کر رکھ دیا ہے،منڈیوں کو درہم برہم کردیا ہے۔وہیں ممکن ہے کہ حکومتوں کی قابلیت کو بھی بے نقاب کر دے ۔کسی کے نزدیک کورونا کے بعد کا وقت جمہوریت کی بہتری ثابت ہو گا،اور کسی کے نزدیک یہ آمرانہ حکمرانی کے فوائد کو ظاہر کر دے گا۔یہ وہ تنکا بھی ثابت ہو سکتا ہے ،جو معاشی عالمگیریت کے اونٹ کی کمر توڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد بے روزگاری اور ملازمتوں سے محرومیت میں بڑی سطح پر اضافہ ہو سکتا ہے،
اس وقت دنیا بھر کے سیاسی، سماجی اور معاشی امور کے ماہرین میں یہ بنیادی نکتہ زیربحث ہے کہ مستقبل کی دنیا کیا ہوگی اورکیا اس کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں ہمیں کوئی بڑی تبدیلی روایتی حکمرانی اور فیصلوں کے تناظر میں نظر آئے گی یا ہم اس بحران کے بعد کچھ نیا سبق حاصل کرنے کے بجائے وہی غلطیاں دہرائیں گے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی بات چھوڑیں، اس وقت ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک بھی ان معاملات میں بری طرح بے نقاب ہوچکےہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمگیریت یا سرمایہ داری پر مبنی دنیا کے سامنے اب ایک بڑا چیلنج سیکورٹی یا جنگوں پر مبنی ریاستوں کے بجائے انسانوں سے جڑی ریاستیں ہونی چاہئیں۔ ایسی ریاستیں جن کو دنیا میں ہم فلاحی ریاستوں کا نام دیتے ہیں، جہاں عملاً انسانوں سے جڑے بنیادی نوعیت یا حقوق کے مسائل اہم ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے بھی اس وقت یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہمیں کورونا سے متاثر غریب ممالک کیلئے کچھ غیرمعمولی اقدامات کرنے ہوں گے جن میں قرضوں کی واپسی معطل کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے اور رعایتی قرضوں کیلئے بھی جی20 رہنماؤں سے رجوع کیا جائے گا۔ غریب ممالک اس وقت امیر ملکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ خود امیر ممالک بھی اس وبا کا شکار ہوئے ہیں اور ان کی اپنی معیشت بھی تباہ ہوئی ہے۔ ایسے میں بڑے مالیاتی ادارے کیا کچھ کرسکیں گے یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کورونا نے پاکستان جیسے ملکوں کو بھی شدید مشکل میں ڈال دیا ہے کہ ہم کیسے اپنی معیشت کو بچا سکیں گے اور ان برے حالات میں جب دنیا لاک ڈاؤن میں ہے، کمزور لوگوں کو کیسے اورکتنا بڑا ریلیف دیا جاسکے گا؟ بنیادی طور پر پوری دنیا کے سماجی، سیاسی اورمعاشی نظام میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا کے بڑے ممالک اور اداروں کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں نے لوگوں کو جنگوں، تنازعات، جھگڑوں کے نتیجے میں غربت، محرومی اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا ہے، اب یہ نظام ایسے نہیں چل سکے گا، ہمیں امن اور ترقی کے بیانیے کو بنیاد بنانا ہوگا۔ کورونا وائرس جیسی وبا کا پوری دنیا کیلئے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ انسانوں پر سرمایہ کاری کرے اور اپنے اپنے معاشروں میں سماجی اور معاشی شعبوں میں عوام سے جڑے معاملات میں ایسے ڈھانچے، انتظامات اور ادارے تشکیل دے جو لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔
دوسری جانب مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کے بعد آنے والی وبائیں کہیں زیادہ ہلاکت خیز ہوسکتی ہے۔انکا کہنا ہےکہ کورونا قدرتی وبا ہے اور خوش قسمتی سے اموات کی شرح بھی کم ہے، اگلی وبائیں قدرت کے ساتھ حیاتیاتی دہشت گردی سے بھی آسکتی ہیں۔بل گیٹس نے پانچ سال قبل کہا تھا کہ وبا پوری دنیا پھیل سکتی ہے کیوں کہ تمام ممالک آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ مائیکرو سوفٹ کے بانی نے یہ بھی کہا تھا کہ ہوسکتا ہے اگلی صدی میں بیماری قدرتی طور پر پھوٹے یا بطور ہتھیار استعمال کی جائے۔اب وقت ہے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم کس طرح اس وباء کے بعد ایک مرتبہ پھر سے اپنی سفر جاریرکھ سکتے ہیں ، خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر معاشی طور پر صفر سے سٹارٹ لے گی مگر چین ایک مرتبہ پھر سے سٹیبلائزیشن کی طرف محوِ سفر ہے ۔ نظر انداز کرنا بے وقوفی ہوگی ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شیراز احمد شیرازی کے کالمز
-
بدقسمت بٹگرام کا خادم ۔۔۔۔ فیاض محمد جمال خان اور ان کے کارنامے
منگل 4 جنوری 2022
-
16 دسمبر 2014۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک منہوس دن
بدھ 16 دسمبر 2020
-
نواز شریف ، آیت اللہ خمینی اور تاریخ سے نابلد سیاستدان
پیر 12 اکتوبر 2020
-
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں چلیں گی ۔۔۔۔ مگر؟
جمعہ 28 اگست 2020
-
یاسر حمید ہم شرمندہ ہیں.!
پیر 1 جون 2020
-
عمراں خان کی دیانت داری۔۔۔۔اور مولانا طارق جمیل
اتوار 26 اپریل 2020
-
آن لائن کلاسز۔۔۔ طلباء پر ایک پر بوجھ
منگل 7 اپریل 2020
-
ہم اور دنیا ۔۔۔۔۔کورونا کے بعد
ہفتہ 4 اپریل 2020
شیراز احمد شیرازی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.