آن لائن کلاسز۔۔۔ طلباء پر ایک پر بوجھ

منگل 7 اپریل 2020

Sheraz Ahmad Sherazi

شیراز احمد شیرازی

ہیلو شیراز ۔۔۔۔ اب تک کتنی کلاسز ہوچکی ہیں ؟ کیا کیا پڑھایا ہے سر نے ؟ کوئی اسائنمنٹ تو نہیں دی ؟ ہمارے ہاں تو سیگنلز کام ہی نہیں کرتے  ، کام کیا نیٹ ورک ہےہی نہیں  ۔۔ میں گھر سے 2 گھنٹے مسافت کے بعد ایک پہاڑی پر بیٹھ کر آپ سے بات کررہا ہوں ۔۔ میرے پاس لیپ ٹاپ بھی نہیں ۔۔ آن لائن کلاسز کیسے لونگاَ ؟ ۔۔۔ کلاسز اگر نہیں لونگا تو اٹینڈنس شارٹ ہوجائیگی ۔

۔۔۔ مجھے تو یہ سمسٹر ہاتھ سے جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔۔۔ اب کیا کروں شیراز ی تم ہی کوئی راستہ نکالو یار ۔۔۔۔۔۔ یہ میرے دوست نعمت اللہ کاکڑ کی فریاد تھی جو بلوچستان کے دورافتادہ گاوں سے تعلق رکھتا ہے  اور ہمارے ساتھ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں علم کی پیاس بجھانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔

(جاری ہے)

یقین کیجئے اس کال کے بعد اب تک پریشانی کی عالم میں مبتلا ہوں ۔

۔۔۔ سوچتا ہوں کیا بنے گا ہمارا ۔۔۔۔ کیسے لینگے وہ طالب علم آن کلاسز جو ہم جیسے پہاڑی علاقوں کے رہائشی ہوں۔۔۔ یا جن کے پاس تیز انٹرنیٹ کی سہولت  ، لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون نہ ہو؟  آن کلاسز پڑھانے کیلئے ان ٹرینڈ اساتذہ ؟ نان سیریس طلباء ؟ کلاس کے دوران بار بار سیگنلز ڈراپ ہوجانا؟ یقین کیجئے ملک بھر میں کرونا وائرس کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد متعارف کروایا جانے والا ای لرننگ یا آن لائن ایجوکیشن سسٹم طلبہ کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے اور وہ اسے ناقابل عمل اور ناکام قرار دے رہے ہیں۔

کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں چاروں صوبوں میں لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے وہیں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے تمام تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سےلاکھوں طالب علم گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ جس کے بعد مختلف تعلیمی اداروں کی طرف سے ای لرننگ یا آن لائن تعلیم و تدریس کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔

تاہم طلبا غیر روائتی آن لائن ذریعہ تعلیم سے ناخوش نظر آتے ہیں کیونکہ یہ سسٹم ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔
موذی کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معاملات دیکھنے والے ادارے ایچ ای سی یعنی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ وہ متبادل طریقہ تعلیم پر کام کریں۔

ان چھٹیوں کو ‘بڑے امتحان’ کی تیاری کے لیے استعمال کیا جائے یعنی اگر کرونا وبا لمبا عرصہ رہتی ہے تو پھر طالب علموں کو اپنے گھروں میں تعلیم دینے کا بندوبست کیا جائے۔ بیشتر نجی اور سرکاری اداروں نے اس حوالے سے اقدامات کر لیے ہیں اور طلبہ کو آن لائن لیکچرز اور دیگر تعلیمی مواد بھیجا جا رہا ہے۔ تاہم طلبہ کی اکثریت کا کہنا ہے آن لائن پڑھائی حقیقی تعلیم کا متبادل نہیں۔

یا تو بین الاقوامی سطح کا متبادل نظام مہیا کیا جائے یا پھر طالب علموں کو سمسٹر بریک دی جائے۔ ہم نے لاکھوں روپے فیس دے رکھی ہے یہ سراسر زیادتی ہے کہ پیسے تو حقیقی کلاسز کے لیے جائیں لیکن جگاڑ لگا کر پڑھایا جائے۔
اسٹوڈنٹس کی جانب سے  شدید ردعمل کےبعد ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کچھ جامعات میں آن لائن کلاسز  ختم کرلی ہے اور کچھ میں آن لائن کلاسز سے متعلق شکایات کے پیش نظر اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے متعلقہ کورسزکی تفصیلی معلومات طلب کر لی ہیں تاکہ کورسز کے مشمولات، اُن کی طلبہ تک ترسیل اور کنیکٹیوٹی کے معاملات کو پرکھا جاسکے۔


اس ضمن میں چیئرمین ایچ ای سی طارق بنوری نے  بھی کہا تھا  کہ اگراعلیٰ معیارکے آن لائن کورسزکی فراہمی کے حوالے سے کسی یونیورسٹی کی استعدادکار کم ہے تو وہ  تعلیمی عمل31 مئی تک معطل  رکھ سکتی ہیں ، اور یہ عرصہ موسم گرما کی تعطیلات میں شمار کیا جائے گا۔جبکہ ایچ ای سی کی جانب سے یہ  ہدایت  بھی کی گئی کہ   ایسی تمام جامعات 31 مئی سے پہلے پہلے لرننگ مینجمنٹ سسٹم  مضبوط بنانےکے ساتھ  عملے اور اساتذہ کو ٹریننگ دیں اور یکم جون سے ایل ایم ایس کو مکمل طور پر عمل میں لائیں تاکہ سمسٹر پورا کیا جاسکے۔


ایچ ای سی کی جانب سے ۔جاری کردہ نوٹیفکیشن میں یہ بھی  کہا گیا تھا کہ  ابھی یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ کورونا وائرس کے باعث عائد پابندی کب تک رہے گی، اگر صورتحال میں بہتری ہوئی اور پابندی یکم جون سے پہلے اٹھا لی گئی تو ہم باقاعدہ کلاسز کی طرف جائیں گے بصورت دیگر ہم آن لائن اپنی کلاسز جاری رکھیں گے۔ آن لائن کلاسز کے انعقاد کیلئے ٹیکنیکل سپورٹ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے،جو یونیورسٹی انتظامیہ کو آن لائن ایجوکیشن سسٹم کو اختیار کرنے میں مدد فراہم کرے گی، جبکہ ایچ ای سی نے نیشنل اکیڈمی فار ہائر ایجوکیشن کو تجویز دی ہے کہ اساتذہ کی آن لائن ایجوکیشن کے حوالے سے صلاحیتوں کو نکھارنے کیلئے آن لائن کورسز کا بھی اہتمام کیا جائے۔


 سوال یہ ہے کہ آخر کب پاکستان کے فرسودہ تعلیمی نظام میں  تبدیلی  آئے گی ۔ کب ہمارا تعلیمی نظام اتنا موثر  ہوگا کہ طلبہ کو  ایک کلک پر ہر چیز میسر ہو سکے گی؟  ہم بحیثیت  قوم کسی حادثے  کے بعد ہی کیوں جاگتے ہیں۔ امید ہے کہ  ایچ ای سی طلبہ کی مشکلات کا حل نکالتے ہوئے ایک موثر پلان کے تحت اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنا سکے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :