کیا ہم انسان ہیں؟

جمعرات 4 جون 2020

Sidra Kamal

سدرہ کمال

خدا تعالی نے کائنات کو اس قدر خوبصورت اور پرکشش بنایا ہے کے انسانی آنکھ قدرت کے کرشمے دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔جیسے آسمان کی نیلگی ہر سو اپنا حسن بکھیرے ہوئے ہے۔بالکل اسی طرح سورج کی کرنیں نا صرف آسمان کو مزید پرکشش بنا دیتی ہیں بلکہ زمین پر رہنے والے تمام جانداروں کا انحصار بھی سورج کی روشنی پر ہے ۔ان کے علاوہ بھی اللہ تعالی نے لاتعداد نعتیں عطا کر کے زمین کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔

نعمتوں کی اس فراوانی کے بدلے میں ہونا تو یہ چاہئیے تھا کے انسان اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر بجا لاتا اور امن کے ساتھ زندگی بسر کرتا لیکن جب ہم زمین پر بسنے والے انسانوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ایک کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ظلم و ستم سے ستائے ہوئے انسانوں کی چیخ و پکار سے زمین ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور ہر چیز نیست و نابود ہو جائے گی۔

(جاری ہے)

ظلم و ستم کی وجہ سے اداسی کا زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لینا عجب داستان پیش کرتا ہے۔اس داستاں کا مرکزی کردار حضرت انسان ہے جو کبھی مظلوموں پر جبر کے پہاڑ توڑ کر ظلم کی افسوس ناک مثال قائم کرتا ہے تو کبھی ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر مسیحا کہلوانا پسند کرتا ہے۔یہی انسان کبھی انسانوں کو نسل پرستی کی بھینٹ چڑھا کر انسان ہونے کی سزا دیتا ہے اور مظلوموں کے ذہنوں میں یہ سوال نقش کر جاتا ہے کے کیا ہم انسان ہیں؟
بے بنیاد وجوہات پر جس بے دردی سے انسانوں کی تقسیم کا عمل جاری ہے یہ کہنا کے انسان انسانیت کے درد سے محروم ہو چکا ہے غلط نا ہو گا۔

انسانوں کو رنگ و نسل،جسمانی خدوخال،سماجی رویوں،فرقہ واریت اور ادنی و اعلی  کی بنیاد پر تقسیم کر کے معاشرے میں ایک ایسی جنگ چھیڑ دی گئی ہے کے جس کے نتائج کئی نسلوں کو بھگتنا پڑیں گے۔افسوس کا مقام ہے کے اس جنگ کی چھیڑ خانی میں بھی مرکزی کردار حضرت انسان ہی ادا کر رہا ہے۔ اسی چھیڑ خانی کی وجہ سے معاشرے میں نفرت دن بدن برھتی جا رہی ہے اور معاشرہ بد امنی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔


معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئیے انسان کو انسان کا حمایتی دوست بننا تھا لیکن یہاں ایک انسان دوسرے انسان کی عزت کا رکھوالا بننے کی بجائے عزت کا سر بازار تماشہ بنانا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک انسان کی مشکل گھڑی دوسرے انسان کی وجہ شہرت بن چکی ہے۔جیسے اگر کوئی غریب کسی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے فاقے کرنے پر مجبور ہو جائے تو اس کی مدد کو آنے والا مسیحا عزت کو کھیل بنا کر ویڈیو بنائے گا اور چند تعریفی کلمات ویڈیو میں قید کر کے عزت کا جنازہ نکالے گا۔

یہی جنازہ اس کی شہرت کا سبب بن جائے گا۔ اس طرح کے اور بھی بھیانک کھیل انسانوں کے ساتھ کھیلنے کا رواج ہمارے معاشرے میں عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔
مفاد پرستی نے جس قدر اخلاقی قدروں کو نقصان پہنچایا ہے کسی اور شے نے نہیں پہچایا۔ دل میں بغض اور حسد کو پروان چڑھا کر مفاد کے حصول کے لئیے تعلق قائم کرنا تو جیسے ہر انسان کا شیوا بن چکا ہے اور اس بیماری میں معاشرے کا ہر دوسرا فرد مبتلا ہے۔


ایسی ہی کئی دوسری بیماریوں کا تجزیہ کرنے کے بعد انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کے یہاں ہر کوئی پابہ رنجیر ہے پھر چاہے وہ مجرم ہو یا تماشائی،سب کی عقل سلیم کو زنگ لگ چکا ہے کیونکہ انسان اخلاقی قدروں کو بھلا کر ایک نئے سفر کی طرف گامزن ہو چکا ہے اور انسانوں کے احساسات کو روندتا ہوا گزرتا چلا جا رہا ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے کوئی جانور اپنی خوراک کے حصول کے لئیے دوسروں جانوروں سے مقابلہ کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
افراتفری کے اس پر فتن دور میں لوگ جوق در جوق اس سفر میں شامل ہو رہے ہیں اور ایک کثیر تعداد کا بے حسی کے اس سفر میں شامل ہونا یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کے کیا ہم انسان ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :