ٹی ایل پی اور جاتی امراء ماضی ہوئے

پیر 19 اپریل 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

گزرتے ہوئے ہفتے کے اوائل میں چند ایک خبروں کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں خاصی گرمی دیکھنے میں آئی جس کے باعث اب تک ہر محب وطن پاکستانی بے چین اور بے قرار دکھائی دے رہا ہے۔گزشتہ ہفتے پی ڈی ایم میں انتشار اور ان کی اپنی ہی میٹنگز میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور اس کے بعد شوگر، گندم اور ضروریات زندگی کی دوسری اشیاء میں ذخیرہ اندوزی کے باعث رمضان المبارک میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال نہایت مبہم کا شکار رہی۔

شوگر سکینڈل کے باعث اورجہانگیر ترین کا نام مافیاز میں آنے کے بعد انہیں بار بار اپنی اور اپنے بیٹے علی ترین کی ضمانت کیلئے عدالتوں کے چکر بھی لگانے پڑے۔ اس کے جواب میں جہانگیر ترین نے اپنے 29 حمایتی ارکان کو اپنے گھر میں جمع کر کے کھانے بھی کھائے اور اپنا ایک علیحدہ اتحاد حکومت وقت کو دکھانے کی پوری پوری کوشش کی لیکن اس ضیافت کے بعد جہانگیر ترین نے ایک پریس کانفرنس اعلامیہ میں اس بات پر ایک بار پھر زور دیا کہ وہ کسی دوسری پارٹی میں نہیں جا رہے، ہم تحریک انصاف کے ساتھ ہیں اور انشااللہ رہیں گے لیکن حکومت وقت کو بھی چاہئے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی نا ہونے دے۔

(جاری ہے)

ابھی گزشتہ ہفتے ہر طرف اس ملکی سیاسی مسئلہ پر پورے زور و شور سے بحث جاری تھی کہ ایک اور ''کٹا'' کھل گیا کہ تحریک لبیک پاکستان کے مرحوم و مغفور امیر علامہ خادم حسین رضوی کے نوجوان صاحب زادے اور نومنتخب امیر سعد رضوی کو پنجاب حکومت نے انہی کی پارٹی کے بانی کارکنوں میں شامل پیرعبدالقادری کی طرف سے درج کرائی گئی ایک ایف آئی آر پر گرفتار کرلیا جس میں پیر عبدالقادری نے سعد رضوی پر الزام لگایا کہ وہ ایک نوجوان ہیں اور وہ اس تحریک کی قیادت کرنے کے قطعی اہل نہیں، کیونکہ وہ علامہ خادم کے فرزند ہیں صرف اسی بنا پر انہیں پارٹی کا سربراہ بنایا جانا بالکل بھی صحیح فیصلہ نہیں، انہوں نے سعد رضوی پر الزام لگایا کہ یہ نوجوان کوئی حافظ قرآن نہیں اور نا کوئی کوالیفائی علامہ ہے جو کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ہر جگہ لکھتے ہیں، دوسرا یہ کہ سعد رضوی نے تحریک کے اندر ہی ایک قبضہ گروپ تشکیل دے رکھا ہے اوریہ جب سے تحریک کے سربراہ بنائے گئے ہیں انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے کروڑوں روپے کے اثاثوں پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ اثاثے وہ اپنے ذاتی استعمال میں لا رہا ہے۔

اسی ایف آئی آر میں عبدالقادری نے سعد رضوی پر الزام عائد کیا کہ یہ ایک نشئی نوجوان ہے اور ایسا شخص ایک متبرک و پاک تحریک کا سربراہ کیسے بن سکتا ہے؟ مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ اس ایف آئی آر میں سعد رضوی پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے انہیں گرفتارکیا گیا لیکن سعد رضوی نے کمال چالاکی سے اس گرفتاری کا تانا بانا اس بات سے ملا دیا کہ حکومت پاکستان ٹی ایل پی سے کئے گئے معائدہ سے مکر رہی ہے جس میں انہوں نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے ہماری جماعت سے کر رکھا ہے، جو کہ موجودہ اور سابقہ حکومت کی نالائقی کی ایک اعلٰی مثال ہے، کیونکہ ایسے کسی سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کرنا کسی بھی صورت سفارتی آداب کے خلاف ہے، اس کیلئے کئی ایک حساس قائدے وقانون کا خیال رکھنا اشد ضروری ہوتا ہے۔

سعد رضوی کا گرفتار ہونا تھا کہ پورے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سڑکوں کو بلاک کر دیا گیا، جس سے پورے ملک کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس غیرمتوقع احتجاج پر پورا ملک کچھ دیر کیلئے جام ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر نقصان غریب پاکستانیوں کا ہوا، سارے ملک میں کئی موٹر سائیکلوں، چنگ چی رکشہ، پرائیویٹ گاڑیوں اور سرکاری و غیرسرکاری املاک کو نذر آتش کر دیا گیا۔

مبینہ طور پر اس ہنگامہ کے نتیجہ میں پنجاب پولیس اور سول 20 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 24 گھنٹوں کے گزر جانے کے بعد سرکاری مشینری بھی حرکت میں آئی اور انہوں نے جگہ جگہ سڑکوں پر موجود جتھوں کو منتشر کیا اور جن افراد نے اس احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انہیں گرفتار کر لیا بلکہ ابھی تک ان شرپسند عناصر کی گرفتاریوں کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں جو کہ روپوش ہو چکے ہیں۔

ٹی ایل پی کے اس دنگافسادی احتجاج کو کوئی بھی محب وطن پاکستان اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ اب تک سینکڑوں افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں۔ اس سے اگلے ہی روز وزیراعظم پاکستان نے نیشنل سیکورٹی اداروں کے سربراہوں اور اپنی کابینہ کے ہمراہ میٹنگ میں گفتگو کرکے اس مذہبی جماعت ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اب یہ جماعت پاکستان کے کسی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کر سکے گی۔اور آئندہ آنے والے دنوں میں اگر سپریم کورٹ کی منظوری آ گئی تو اس کو پاکستان کی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے کا امکان ہے۔اب تو سوشل میڈیا پر کئی ایک کلپ میں دیکھا جا رہا ہے کہ مختلف شہروں میں اس دنگا و فساد میں مسلم لیگ ن کے بھی کئی کارکن شامل ہیں جو مختلف مواقع پر اس احتجاجی جلوس میں شامل لوگوں کو توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کیلئے اکسا رہے ہیں۔

بحرحال شکراللہ ہے کہ دو روز بعد تمام حالات کنٹرول میں آ چکے ہیں اور ان تمام فسادیوں کی گرفتاری کے بعد ان سب کا سوفٹ ویئر بھی اپ گریڈ بلکہ ڈاؤن لوڈ کیا جا رہا ہے۔
محبت کا دعویٰ محبت نہیں ہے
تشدد کا رستہ شریعت نہیں ہے
محبت نبیﷺکی خدا کی عطا ہے
فقط نعرے بازی کی وقعت نہیں ہے
مسلماں کا قاتل مسلماں ہوا ہے
یہ ختم نبوت ﷺکی خدمت نہیں ہے
کسی امتی کا قتل توبہ توبہ
یہ عشق نبی ﷺ میں اجازت نہیں ہے
جلاؤ، گھیراؤ یہ دھرنے، یہ رکاوٹ
سیاست گری ہے، عقیدت نہیں ہے
آج کل ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر سابق حکومت کے سربراہ اور مریض اعظم نواز شریف خاندان کی ایک اور غضب کہانی بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہے جس کا تعلق زمین کے قبضہ مافیا سے ہے۔

اس کے تمام ثبوت اکٹھے کرنے کے بعداس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے '' جاتی امرا'' محلات بھی غیرقانونی تعمیرات میں شامل ہیں۔ جس کے باعث مسلم لیگ ن میں آجکل صف ماتم بچھا ہوا ہے کیونکہ نواز شریف خاندان نے سرکاری زمین پر اپنے اور اپنی فیملی کیلئے جو محل نما گھر بنا رکھے ہیں وہ سرکاری زمین ہے، اور یہ تمام تعمیرات غیرقانونی ہیں۔

ہو سکتا ہے آنے والے چند ماہ کے اندر نوازشریف کے خاندان کے یہ سارے محل نماگھر مسمار کر کے سرکاری زمین واگزار کرا لی جائے، جس پر یہ سارا خاندان ناجائز قابض ہے۔ابھی یہ خبر اتنی وائرل نہیں ہوئی لیکن چند دنوں تک یہ بھی ایک نیا '' کٹا'' کھلنے والا ہے۔ ابھی سے اس مسئلہ پر مسلم لیگ ن کے حواریوں کی چیخیں نکلنا شروع ہوچکی ہیں۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ 1988ء کے الیکشن کے بعد بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بنی۔

اس دور میں پنجاب کے وزیراعلٰی نواز شریف منتخب کئے گئے۔ انہی دنوں اس خاندان کے گرینڈ والد '' میاں شریف'' نے خواہش ظاہر کی کہ انہیں قیام پاکستان سے قبل ان کا بھارتی پنجاب میں گاؤں ''جاتی امرا'' بہت یاد آتاہے ، ان کا دل کرتا ہے کہ یہاں لاہور کے گردو نواح میں بھی کوئی ایسا گاؤں بنایا جائے جس کا نام جاتی امرا ہو۔اپنے ابا جان کے خواب نما خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نواز شریف نے ایک وسیع قطعہ اراضی حاصل کرنے کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔

رائے ونڈ روڈ پر اس زمین کا انتخاب کیا گیا جو ایک سٹیٹ لینڈ یعنی سرکاری زمین تھی، اس زمین کے اردگردکچھ قطعہ اراضی ایسی بھی تھی جو وہاں رہنے والے کسان اور کاشت کاروں کی ملکیت تھی، اردگرد کے رہنے والوں سے کچھ زمین اونے پونے داموں شریف خاندان نے خریدلی جو اب اسی سرکاری زمین ) سٹیٹ لینڈ( کا حصہ ہے جہاں جاتی امرا کے نام سے آبادی آباد ہے۔

اور خالصتاً سرکاری زمین جہاں شریف خاندان کے محلات تعمیر ہیں، ان پر ناجائز قبضہ ہے۔اس سرکاری زمین کو پہلے تو 1989ء میں ایک خاتون وحیدہ بیگم کے نام ناجائز اور غیرقانونی طور پر الاٹ کیا گیا ، یاد رہے کہ کسی بھی سرکاری زمین کی الاٹ منٹ کو محکمہ مال اور بورڈ آف ریونیو میں اس زمین کا ریکارڈ نہیں ڈالا جا سکتا،کیونکہ یہ ایک بہت زیادہ مشکل کام ہے۔

اگر سرکاری زمین کو الاٹ کرانا مقصود ہو تو پٹواری حضرات اور ضلعی حکومت کو استعمال کیا جا سکتا ہے، جو شریف خاندان نے کیا۔اس سارے عمل کو کرنے کیلئے پٹوارخانہ اور ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے ایک حد تک دو نمبری کی جا سکتی ہے لیکن تمام کی تمام الاٹ منٹ کرنی ممکن نہیں۔ کیونکہ آخر کسی نا کسی وقت پر ایسا کرنے والاضرور پکڑا جاتا ہے۔لینڈ ایکٹ 1977ء سے پہلے ایسا ہو جایا کرتا تھا لیکن 1977ء میں اس کو قانونی شکل دیدی گئی کہ کوئی بھی سرکاری زمین کسی کو الاٹ نہیں کی جا سکتی۔

لیکن نواز شریف نے اپنے ابا جان کے خواب کی تعبیر کیلئے 1989ء میں لینڈ ایکٹ 1977ء کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے 175کنال کو سرکاری زمین کو ایک خاتون وحیدہ بیگم کے نام پر ٹرانسفر کرا دیا۔لیکن کبھی بھی اس زمین پر وحیدہ بیگم نامی خاتون کا قبضہ نہیں رہا۔مبینہ طور پر اس زمین کا آج بھی محکمہ مال اور بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ میں کوئی نام و نشان نہیں بلکہ یہ زمین آج بھی سرکاری زمین ) سٹیٹ لینڈ( ہے۔

دراصل اس سارے راز سے پردہ نواز شریف کے اپنے ذاتی اور قریبی دوستوں نے اٹھایا ہے۔ یہ دوست پہلے بھی شریف خاندان کے خلاف کئی بار بیان بازی اس وقت کر چکے ہیں جب وہ پہلے بھی اپنے پورے خاندان کے ہمراہ ملک بدر ہو کر سعودیہ چلے گئے تھے۔1989ء میں وحیدہ بیگم کو اس زمین کی الاٹ منٹ کرنے کے کچھ عرصہ بعد اسے شمیم بیگم ) والدہ نواز شریف( نے ان سے خرید لیا۔

نوازشریف کے دوستوں نے جب حکومت وقت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو انکوائری کمیٹی نے تمام ریکارڈ چھان مارے لیکن انہیں یہی پتہ چلا کہ جاتی امراء کے محلات کی 175 کنال زمین تو سرکاری زمین ہے، ان پر تعمیرات ناجائز ہیں۔ اب آنے والے وقت میں اس زمین کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعداور عدالت کی جانب سے فیصلہ کے بعد لازمی طور پر ناجائز ذرائع سے قبضہ میں لی گئی اس زمین پر بھی بلڈوزر چلیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :