آرمی چیف توسیع کیس:اس بہانے بہت سے اہم سوالات کے جوابات ڈھونڈھ ہی لیئے جائیں

بدھ 27 نومبر 2019

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کیا فیصلہ دے گی لیکن خواہ کوئی بھی فیصلہ دے مگر یہ خدشہ بہت قوی ہے کہ حکومت کی نالائقی کی وجہ سے آرمی چیف کو جس شدید مشکل اور خفت آمیز صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ہے اسکی وجہ سے آئندہ اس حکومت اور عسکری قیادت کا رومانس مزید نہیں چل پائے گا اور اب مصلحت کی کتاب میں سے شاید وہ پیج ہی پھٹ جائے کہ جس پہ بیک دونوں کے موجود ہونے کا بڑا شہرہ تھا اور اب فوج کے لیئے بھی حکومتی نااہلی کی برداشت کی اخیر ہوگئی ہے اور اب وہ ان کی راہ کے کانٹے چننے کی مزید زحمت نہیں اٹھائے گی۔


ایک امکان اس بات کا بھی ہے کہ اب شاید جنرل باجوہ اس سبکی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس توسیع کو زیادہ نہ جھیل پائیں اور گھر چلے جائیں۔

(جاری ہے)

لیکن خیر اب جو بھی ہو یہ کیس بہرطور بہت سے اہم پہلوؤں کا حامل ہوگیا ہے جو حالانکہ دائر تو محض سستی شہرت یا کسی چھوٹے موٹے مفاد کے حصول کے لیئے کیا گیا تھا کیونکہ اسے ریاض احمد راہی نامی جس شخص نے دائر کیا ہے وہ خود بھی ایک وکیل ہے اور کسی نہ کسی حوالے سے مقدمات کرتا رہتا ہے لیکن پھرمیڈیا کی خبروں میں چند رہنے کی ٹھرک پوری ہونے کے بعد ایسے کیس کی سماعتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا اور کیسیز یا تو خارج ہوجاتے ہیں یا معلق ہوکر اسکی فائلیں دیگر فائلوں کے ڈھیر میں دبتی چلی جاتی ہیں اور پھر طاق نسیاں کا حصہ بن جاتی ہیں۔

۔۔
لیکن یہ توسیع والا کیس ہی ایسا تھا کہ جب اسے اس کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو اسنے اسے واپس لینے کی کوشش کی لیکن وہ اتنا گھبرا گیا تھا کہ خوف یا پھر بدحواسی کے مارے اس مقصد کے لیئے نہ تو خود پیش ہوا اور نہ ہی اسکے لیئے درکار تقاضوں کی تکمیل کا خیال رکھ سکا جیسے حلف نامے کا نتھی کیا جانا وغیرہ، لیکن اس کیس سے پراسرار دستبرداری بھی اتنی حیران کن نہ تھی جتنی کی جاتے۔

چیف جسٹس کا اس کا از خود نوٹس لینا اور اس میں سے جھلکتے بلکہ چھلکتے کئی قومی مفاد کی پاسداری کے لیئے انکا یوں ڈٹ جانا۔ لیکن اچھا ہے کہ اسی کیس کے بہانے اب قومی اہمیت کے کچھ اہم سوالات کے جوابات بھی ڈھونڈھ لیئے جائیں اور چند پیچیدہ معاملات کو بھی آسان کرلیا جائے جن میں سب سے اہم تر تو سول بلادستی کے گمان کو حقیقت میں بدلنے کا معاملہ ہے اور اسکے لیئے ضروری ہے کہ ان ناگزیر حالات کی جامع تشریح کھوج لی جائے کہ جو کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیئے فی الواقع ضروری بلکہ بیحد ناگزیر ہیں اور وہ پیمانہ بھی وضع کرلیا جائے جو اس خطرے یا بحران کی امکانی مدت کا کچھ تعین کرسکے تاکہ بے دھڑک ایک مکمل 3 برس کی پوری طویل مدت دینے کے بجائے اس ناگزیر صورتحال کی مدت کی حد تک ہی مدت ملازمت میں کی جانے والی توسیع کو پابند کیا جاسکے تاکہ چین آف کمانڈ میں نیچے موجود تقرری کے منتظر کسی نہایت اہل اور بہت موزوں فرد کے ساتھ زیادتی نہ ہوسکے اور ایسی توسیعی لنگڑی پالا میں اس کی کا ترقی کا حق نہ مارا جاسکے کیونکہ پورے 3 برس کی توسیع کے نتیجے میں اس مدت میں اس وقت موجود 10 کور کمانڈر میں سے زیادہ تر ریٹائر ہوجاتے ہیں۔

یہ توسیع اس لیئے اور بھی خراب ہے کیونکہ کئی باصلاحیت جنرلز کا کیریئر ختم کردینے کے علاوہ اسکے نتیجے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نئے کورکمانڈر بننے والوں میں سے کوئی بعد میں پرانوں سے پہلے حاکم وقت کی نگاہ انتخاب کا مرکز بن جائے اور بچے کھچے پرانے پھر ٹاپتے رہ جائیں اور کئی بار ایسا ہوا بھی ہے۔ یہاں پہ میری تجویز یہ ہے کہ جس طرح عدلیہ میں بھی صوبائی و مرکزی چیف جسٹس کا تقرر صرف سینیاریٹی کی بنیاد پہ خود بخود ہوجاتا ہے فوج میں آرمی چیف کے لیے بھی اسی طریقہء کار کو اپنا لیا جائے تاکہ لابنگ اور مختلف قسم کی ترجیحات وتعصبات کے امکانات سر نہ اٹھا سکیں کیونکہ جس طرح ججز کے بارے میں یہ تصور موجود ہے کہ برسہابرس کی قانونی موشگافیاں انہیں صلاحیت میں بہت قریب کردیتی ہیں اسی طرح یہ کلیہ جنرلز کے لیئے بھی لائق تردید نہیں ہے اور اسی طرح جیسا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی تصؤر نہیں ہے اسی طرح آرمی چیف کی ملازمت میں بھی ہرگز کوئی اضافہ نہ کیا جائے البتہ اگر وہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے یا نہایت غیرمعمولی بحرانی حالات ہوں تو اسکی ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصے کے لیئے یا جب تک ضروری ہو اسے وزیراعظم کا مشیر دفاع مقرر کرنے کی راہ اپنائی جائے۔

میری دانست میں اب وقت آگیا ہے کہ ٹلتے رہنے کے بجائے دفاعی حرارکی کے حوالے سے اہم اقدامات روبہ عمل لے آئے جائیں اور اس مد میں بڑا قدم یہ ہوسکتا ہے کہ چیئرمین چیف آف جوائنٹس اسٹاف کمیٹی کے قطعی اضافی عہدے کو آرمی چیف کے عہدے میں ضم کردیا جائے اور اگر ممکن ہو تو سوئزرلینڈ اور کئی ملکوں کی طرح باری باری باری تینوں سروسیز سے آرمی چیف لیئے جانے کا نظام اپنا لیا جائے البتہ ملٹری سے آنے والے چیف کو ڈیوڑھی مدت دی جائے ۔

اسکے علاوہ یہ بھی تجویز ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے آرمی چیف کی میعادی ملازمت کا سلسلہ ختم کرکے وہ یا تواپنی طبعی عمر پہ ہی ریٹائرہوجایا کرے یا اگر اسے چیف بننے پہ دوسال بھی نہ مل رہے ہوں تو اسے دوسال مکمل کرنے کا قانونی تحٍظ دیدیا جائے تاہم توسیع بالکل نہ دی جائے - ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ سول عسکری بالادستی کے قضیئے سے فول پروف انداز میں اب دائمی طور پہ نمٹ لیا جائے اور اس حوالے سے آرمی چیف کے منصب کو باقی دنیا بھر کے ممالک کی مانند اسی طرح کے مروجہ پروٹولول کا پابند کیا جائے اور اسکی ملازمت کو باضابطہ طور پہ سیکریٹری دفاع کی حرارکی میں اس طرح سمویا جائے کہ عملی طور پہ آرمی چیف کو اس کے ماتحت کے طور پہ ہی کام کرنے کو یقینی بنا دیا جائے اور اس حوالے سے دفاعی امور کے بارے میں اہم نوعیت کے فیصلوں کی درجہ بندی کی جانی لازمی ہے اور درجہ اؤل قسم کے تمام فیصلوں میں سپریم کمانڈر یعنی صدر اور چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیراعظم کی منظوری لازمی ٹہرادی جانی چاہیئے ورنہ ایسا کوئی بھی حکمنامہ ساقط العمل سمجھا جائے۔

مجھے احساس ہے کہ سول بالادستی کے لیئے ٰبظاہر یہ تجاویز غیر معمولی معلوم ہورہی ہونگی لیکن دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور کئی بار کی آئین شکنیوں اور چار بار مارشل لاؤں کے نفاز کے تناظر میں اب ہماری ریاست کے لیئے بھی ان اہم فیصلوں کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :