ارہر کی دال

جمعرات 11 مارچ 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

ویسے تو ہمارے خواجہ صاحب ہر معاملے ہی میں کچھ نہ کچھ فرماتے رہتے ہیں لیکن اگر معاملہ دال کا ہو تو بالکل چپ ہوجاتے ہیں ، انکے خیال میں یہ عین خاموشی کی جا ہے کیونکہ دال ولیوں کی خوارک ہے البتہ وہ یہ حوالہ نہیں دے پاتے کہ کس ولی کے معمولات تابڑ توڑ دال خوری پہ مبنی تھے ۔۔۔  ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر چند روز لگاتار دال کھالی جائے تو طبیعت صلح جوئی کی جانب مائل ہونے لگتی ہے اور خودسپردگی کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے ۔

۔۔۔ شاید اسی لئے تاریخ سے بس یہی معلوم ہوتا ہے کہ کئی جنگیں محض اسی لئے فتح پہ منتج ہوئی ہیں کہ قلیل وسائل والی فوج نے جب کسی غنیم کا محاصرہ کیا اورجب یہ ناکہ بندی طویل ہوگئی اور غذائی قلت کے باعث نوبت دال تک پہنچنے کا خدشہ پیدا ہوا تو اس لاچاری کے تصؤر ہی نے پژمردہ لشکر کو جان لڑانے اور مرنے مارنے پہ آمادہ کردیا اور آن کی آن کشتوں کے پشتے لگاکے اسی شام لشکریوں نے غنیم کے مویشیوں کے باربی کیو سے جشن فتح منایا ۔

(جاری ہے)

۔۔
دال کی بابت خواجہ کی خاموشی کی غایت ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا اصل معاملہ گھریلو امن و امان کو ترجیح دینے کا ہے    ۔۔۔ وہ دال کے درجات مزید بلند کرنے کے لیئے اسے نفس کشی کے لیئے مجرب غذا ٹہراتے ہیں اور انکی اس رائے سے ہم کلی اتفاق کرتے ہیں  کیونکہ دال کھانے کے بعد ہمارے ذہن میں بھی ایسے ویسے خیالات قطعاً نہیں آتے ، بس یہی خیال آتا ہے کیا یہ مسلسل دوسری بار تو کھانی نہیں پڑے گی ۔

۔۔ شاید بلکہ یقینناً اسی لئے جیلوں میں کردار کے سدھار کے لیئے دال کا مسلسل استعمال بیحد آذمودہ سمجھا جاتا ہے اور جیل سے ایک بار باہر آجانے والوں میں سے بہتیرے تو محض اس لیئے جرائم سے پرہیز کرنے لگے ہیں کہ اگر پکڑے گئے تو پھر سے منظر نامہ یہ ہوگا کہ " یہ ہم ہیں ، یہ ہماری دال ہے اور بڑی خواری ہورہی ہے' - دالوں کے بارے میں ہمارے خیالی صاحب کی رائے یہ ہے کہ ویسے تو ہردال ذائقے میں کچھ نہ کچھ  الگ ہوتی ہے لیکن اسکی حیثیت کو اردو قاعدے نے بہت متاثر کیا ہے کہ جہاں حرف دال کے فوری بعد ڈال آتا ہے اور اس ترتیب نے دال کے امیج  بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور اسکا تاثر محض کٹورے میں ڈالے جانے اور چاٹے جانے کے قابل شے ہی کا ابھرتا ہے ۔

۔
اچھی بت ی ہے کہ دالوں کی فہرست کچھ لمبی چوڑی نہیں اور یہ بات خدا کے رحیم و رحمان ہونے کی دلیلوں میں سے ایک بھی ہوسکتی ہے، مگر اس فہرست میں ارہر کی دال کا مقام خاصا اقلیتی سا ہے کیونکہ اسے بہت کم لوگ منہ لگاتے ہیں اور بعضے نجانے کہاں سے سن کے اسے تھوہر کی دال پکارتے اور اس کے تشخص کو مزید مجروح کردیتے ہیں ۔۔۔  لغت کے ماہرین اس نام کو ارہر سے جوڑنے کی کلی تردید کرتے ہیں ور خود ، میں بھی کسی تھوہر نام کی دال سے تو متعارف نہیں ہوا مگر مجھے 'پھوہڑ' کی دال کا ضرور معلوم ہے کیونکہ کئی جگہ اس سے دوچار اور برسر پیکار ہوا ہوں اور بالائے ستم یہ کہ تعریف کرنے پہ مجبور بھی ہوا ہوں لیکن اس طرح کی منافقت یقینناً قابل معافی ہے کیونکہ اس طرح کی دال خوری سے ایک صابردرجہ دوم برآمد ہوتا ہے جو اس صفت کی بنیاد پہ جنت میں جانے کے لئے کوالیفائی بھی کرسکتا ہے ۔

۔۔ ویسے بھی اس طرح کی منافقت ازدواجی زندگی کی گاڑی چلانے میں میں قدم قدم پہ درکار رہتی ہے  اور اس کو رواں رکھنے میں ٹیوب لیس ٹائر جیسی نہایت سازگار ثابت ہوتی ہے
جہانتک ارہر کی دال کا معاملہ ہے تو اپنی شدید گرم تاثیر کے بل پہ کھانے والے میں چھپا ہوا  کوئی 'انقلابی ' بخوبی بیدار کرسکتی ہے  ۔۔۔ چونکہ ایسی گرم دال سرکشی پہ اکساتی اور باغیانہ جذبات کو انگیخت دیتی ہے، اس لئے مجھے گمان ہے کہ اگر برصغیر کےکچھ جانے مانے باغیوں کے بچپن اور جوانی کو کھنگالا جائے تو انکے پس منظر میں یہ دال مسلسل زیراستعمال رہی ہوگی ۔

۔۔ ارہر کی دال عام طور پہ شمالی ہند کی دال ہے حالانکہ اس دال کو امچور یا کھٹائی سے آمیز کرکے پکانے کی ترکیب کے ذریعے دکنیوں کے کھٹاس پرور جذبات کو ِرجھانے کی بڑی کوشش کی گئی ہے لیکن جنوب والے اسکی طرف پیٹھ کئے زندگی گزاردیتے ہیں شاید اس لئے کہ ارہر کی دال بوسیدہ و غنودہ معدے تک کو سرگرم کردیتی ہے اور اسے کھانے سے بندے کے سوچنے کا زیادہ وقت دوسروں کی حاجت روائی کے بجائے ذاتی رفع حاجت میں صرف ہوجاتا ہے اور جنوبی ہند والے اس قسم کی طویل اور غیر منفعت بخش سرگرمیوں کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔

۔۔
 مجھے یقین ہے کہ ارہر ہی وہ دال ہے کہ جس نے اردو ادب میں دال نہ گلنے والے لافانی محاورے کو جنم دیا ہے کیونکہ زیادہ تر کیسیز میں بدبخت پتیلی تو گل جاتی ہے مگر یہ خوش بخت دال نہیں گلتی ۔۔۔ تاہم اسکے باوجود اور تنگ آکے یہ دال کم گلی حالت میں کھا مرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اس کے بعد کافی دیر تک خود کو بجری سے بھرا ٹرک محسوس کرتے ہیں اور بروقت تسلی بخش 'ان لوڈنگ' کے فوری بعد انکے چہرے پہ وہی چمک عود کر آتی ہے جو کہ دال میں بگھار کے فوری بعد دیکھی جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :