
برین واشنگ
جمعہ 30 ستمبر 2016

سید بدر سعید
(جاری ہے)
اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں پراپگنڈا باقاعدہ صحافت کا ایک شعبہ بن چکا ہے ۔ طالب علموں کو پراپگنڈے کے طریقے بتائے جاتے ہیں ۔
دنیا بھر میں پراپگنڈا سیل جدید بنیادوں پر کام کرتا ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنوں کے یہ پراپگنڈا سیل ہی کمپنی کے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر تصاویر اور سٹیٹس اپ لوڈ کرنے کے حوالے سے ہماری برین واشنگ کر چکے ہیں ۔ ہم نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ ہم مہنگے فاسٹ فوڈز بھی خریدتے ہیں اور معاوضہ کے بنا اس کمپنی کی تشہیری مہم کا حصہ بھی بنتے ہیں ۔ کمپنی ہمیں اس تشہیر کا ایک روپیہ بھی نہیں دیتی الٹا ہم عام مارکیٹ سے زیادہ قیمت بھی ادا کرتے ہیں ۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا ۔ ان کمپنیوں کے پراپگنڈا سیل نے لاکھوں روپے اور مراعات کا حق ہماری برین واشنگ کر کے ادا کیا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری برین واشنگ کرنے والے یہ پراپگنڈا سیل کے اراکین کی اکثریت اپنی کمپنی کی بنی اشیا نہیں کھاتے کیونکہ یہ ہماری برین واشنگ تو کردیتے ہیں لیکن خود حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں۔
تیسری دنیا میں پراپگنڈا سیل متحرک تو ہو چکے ہیں لیکن تا حال اتنی جدید بنیادوں پر کام نہیں کر رہے ۔ ہمارے یہاں یہ سیل سیاسی جماعتوں نے بنا رکھے ہیں جو سوشل میڈیا پر پوری الیکشن کمپین چلاتے ہیں ۔ 2013 کے انتخابات میں انہی سیلز نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ دوسری جانب عام آدمی کو جس پراپگنڈے سیل سے واسطہ پڑتا ہے وہ بلا معاوضہ کام کرتا نظر آتا ہے۔ اس کا مقصد اپنی علمیت یا اہمیت کا احساس دلانا ہوتا ہے ۔ یہ وہ دانشور ہیں جو چائے خانوں اور نائی کی دکانوں پر بیٹھے سستے اخبارات پڑھتے ملتے ہیں ۔ یہ ان دکانوں کے مالک یا ملازم بھی ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس بیٹھیں تو لگتا ہے کہ انہیں دنیا بھر کی سیاست اور عالمی تبدیلوں سے لے کر ایوان صدر تک کی ہر خبر معلوم ہے ۔ ان کی رائے حتمی ہوتی ہے جس پر یہ کسی کی تنقید برداشت نہیں کرتے۔ ہر سیاسی فیصلے کے پیچھے یہ کوئی نہ کوئی عالمی سازش بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ ملک میں کوئی بھی افواہ اٹھے یہ پورے اعتماد سے اسے ہوا دیتے ہیں۔ ان کی پوٹلی میں ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ افواہیں سچی معلوم ہونے لگتی ہیں ۔
بنیادی طور پر یہ وہ بوڑھے داستان گو ہیں جنہیں اپنی بات سنانے اور توجہ حاصل کرنے کے لئے سامعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جوانی میں کچی پگڈنڈی پر خوبصورت چڑیلوں سے ملاقات کے احوال سے لے کر گاؤں کی لڑکیوں کے مر مٹنے تک کی داستانیں تو یہ ہر دوسری بات کے جواب میں سناتے ہیں ۔ پولیس کے خلاف بھی ان کے پاس سینہ گزٹ میں بہت کچھ موجود ہوتا ہے ۔ کئی پولیس مقابلوں کے یہ عینی شاہد ہوتے ہیں ۔ تھانوں میں خود انہیں یا ان کے کسی دوست کو ٹھیک ٹھاک پھینٹی بھی پڑ چکی ہوتی ہے ۔ ان کے بقول ہر سرکاری محکمہ کرپٹ ہوتا ہے اور تمام سرکاری افسر و اہلکار آپس میں ملے ہوتے ہیں ۔ یہ کسی بھی سرکاری ادارے پر اعتماد نہیں کرتے ۔ ہمارے یہاں پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں پر عدم اعتماد کا رحجان بڑھنے میں ان داستان گو تجزیہ نگاروں کا خاص کردار ہے ۔
اگلے روز ہم ایسے ہی ایک چائے خانے پر بیٹھے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا رہے تھے ۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں ۔ایک بابا جی پولیس کی کرپشن کی داستان سنا رہے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکو اور پولیس آپس میں ملے ہوتے ہیں لہذا ڈکیتی کے بعد تھانے جا کر رپورٹ لکھوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ مجھ سمیت لگ بھگ سبھی ان سے اتفاق کر رہے تھے ۔ اتنے میں کسی نے سوال کر دیا کہ اگر ہم پولیس کو بتائیں گے ہی نہیں تو اس کا فائدہ براہ راست ڈاکوؤں کو ہی ہو گا ۔ کالج کے ایک طالب علم نے پولیس کے نئے کمپلین سیل کا بھی ذکر کر دیا کہ اگر پولیس اہلکار سے شکایت ہو تو 8787 پر پر کمپلین کی جا سکتی ہے ۔ یہ شکایت ڈائریکٹ اعلی افسران کے پاس جاتی ہے ۔ بابا جی نے اس لڑکے کو ڈانٹے ہوئے کہا کہ یہ سب میڈیا اور پولیس کی ملی بھگت ہے۔ پولیس پر اب عوام کو اعتبار نہیں رہا ۔ گفتگو کے دوران بابا جی کی نظر دکان کے باہر پڑی تو معلوم ہوا ان کی سائیکل اپنی جگہ موجود نہیں ہے ۔ ہم سب باتوں میں اس قدر مصروف تھے کہ کسی کو بھی خبر نہ ہوئی کہ سائیکل کون لے کر گیا ہے ۔ بابا جی کو سائیکل غائب ہونے کا علم ہوا تو بے ساختہ چلا اٹھے : ون فائیو پر کال کرو ، چور زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید بدر سعید کے کالمز
-
پنجاب میں منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاون!
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
کورونا لاک ڈاؤن کے بعد کی دُنیا
جمعہ 30 جولائی 2021
-
ڈیجیٹل میڈیا۔۔۔۔ بےروزگاری میں پیسے کمانے کا سب سے بڑا میڈیا!
جمعرات 29 جولائی 2021
-
انڈرورلڈ کے کارندے
بدھ 28 جولائی 2021
-
آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مائیکرو ڈرون بم ۔۔۔۔ انسان کی ترقی یا موت ؟؟
ہفتہ 13 فروری 2021
-
سیاسی دباؤ سے آزاد پولیس !!
اتوار 5 اگست 2018
-
پولیس کے تبادلے اپنی جگہ مگر دھاندلی کے اصل ذمہ دار کوئی اور!!
جمعہ 29 جون 2018
-
پولیس اصلاحات ۔ نئی وردی بدتمیز اہلکاروں کے لئے خطرہ بن گئی
اتوار 9 اپریل 2017
سید بدر سعید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.