سانحہ جلہ چوک

جمعہ 13 ستمبر 2019

Syed Musab Ghaznavi

سید مصعب غزنوی

بیٹا بازار جانا ہے کچھ گھر کا سامان وغیرہ لانا ہے میں نے اور تیری خالہ نے، تم ہمیں موٹرسائیکل پر شہر لے چلو، ماں نے بیٹے سے کہا جو دوستوں کے ساتھ باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بیٹے نے دوستوں کو بتایا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ شہر جارہا ہے واپسی ہر ملے گا انہیں۔ دوستوں نے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا کہ واپسی پر شہر سے ان کیلئے کوئی کھانے والی چیز لیتا آئے، جس پر اس نے وعدہ کرلیا کہ ہاں ضرور لیتا آؤں گا۔


گھر سے نکلے کہ آج بچوں کیلئے نئے کپڑے اور جوتے لے کر آئیں گے، کچھ گھر کا سودا سلف بھی لانے والا تھا جس لیئے بازار جانا ضروری تھا، دونوں بہنیں گھر سے نکلنے لگیں تو سب بچوں نے اپنا اپنا پیغام سنا دیا کسی کو گڑیا چاہئے تھی کسی کو کھلونا کار اور کسی کو مٹھائی چاہئے تھی، ماں نے سب کے پیغام سنے اور انہیں یقین دلایا کہ انہیں سب لا دیں گی۔

(جاری ہے)


گاؤں سے نکلے جلہ چوک پہنچے ہیں وہاں پر چوک میں ایک گڑھا ہے جہاں سے موٹرسائیکل سوار نہیں گزر سکتا، بلکہ گاڑی بھی نہیں گزرسکتی تھوڑا سائیڈ لے کر گزارنا پڑتا ہے۔ انہوں نے وہاں سے موٹرسائیکل گزارنا تھی آگے سے تیز رفتار ٹرک جو اس ہی سمت میں چلا آرہا تھا ڈرائیور قابو نہ رکھ سکا اور انہیں نیچے کچل ڈالا، ماں اور بیٹا جان کی بازی ہار گئے اور خالہ شدید زخمی ہوگئیں۔


پھر کیا تھا وہ تمام بچے جو خوش تھے اور منتظر تھے کہ آج ان کیلئے ان کی ماں من پسند چیزیں لائے گی ان کی خوشیاں، ان کی مسکراہٹیں آہوں اور سسکیوں میں بدل گئے۔ جو دوست اپنے دوست کے انتظار میں تھے ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ گھر ایک دم سے اجڑ گیا ،کیونکہ گھر تو ماؤں سے ہی آباد ہوتے ہیں ، مائیں نہ رہیں تو گھر ویران ہوجاتے ہیں۔
کیا تھا بس ایک لمحہ میں ایک ہستی بستی دنیا ویران ہوگئی، بچے ماں کے سائے سے محروم ہوگئے، ہمیشہ کیلئے یتیم ہوگئے۔


اور اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟
کوئی اور نہیں بلکہ منتخب عوامی نمائندے جو پانچ سال کیلئے منتخب ہوکر ان تمام مسائل سے آنکھیں چرا لیتے ہیں، اس طرح کے تمام واقعات کے وہی ذمہ دار ہیں۔
تاندلیانوالہ کا بہت مشہور چوک ہے جلہ چوک جہاں سے تقریبا درجن بھر سے ذیادہ بڑے شہروں کو سڑکیں نکلتی ہیں، فیصل آباد، ساہیوال، اوکاڑہ، ٹوبہ، جھنگ، لیہ، بہاولنگر، عارف والہ، فورٹ عباس، مروٹ، اور اس ہی طرح بہت سارے بڑے شہر شامل ہیں، ہر وقت یہاں پر ٹریفک کا زور ہوتا ہے مگر اس روڈ پر اس گڑھے پر کسی نے عرصہ دراز سے توجہ نہیں دی، بہت سارے حادثات ہوئے بہت سے ہستے بستے گھر ویران ہوئے مگر یہ منتخب نمائندے یہ پتہ نہیں انسان ہیں یا حیوان جنہیں کسی کے درد کا احساس تک نہیں ہوتا۔


انہیں صرف ایک چیز کا احساس رہتا ہے وہ یہ کہ کہاں سے اپنی جیب اور اپنا پیٹ بھرا جائے بس، اور کسی چیز کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
خدارا اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی سے ڈرو کیونکہ تمہیں عوام کا نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے کہ تم انہیں درپیش مسائل کا حل نکالو، کل رب کی عدالت میں اتنے بڑے بوجھ میں کھڑے ہونے سے کیوں نہیں ڈرتے ہو۔
آج تو یہ معصوم خاموش ہیں جن کی ماں ان سے چھن گئی مگر کل رب کی عدالت میں یہ تمہیں تمہارے گریبان سے پکڑیں گے، اور تمہیں رب کی عدالت میں گھسیٹیں گے تب تمہارے ایک ایک گناہ کا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ منصف کسی بھی معاملے میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں کرتا۔


اب بھی وقت ہے پلٹ آؤ رب سے اور ان بچوں سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرلو، اور حقیقت میں عوامی نمائندے بن جاؤ نہیں تو دور نہیں وہ وقت جب ایک ایک چیز کا بدلے فورا دے دیا جائے گا، اور کسی کی حیثیت نہیں دیکھی جائے گی اس عدالت میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :