وزیر اعظم آزاد کشمیر کا خطاب اور مطالبہ

جمعہ 20 ستمبر 2019

Syed Musab Ghaznavi

سید مصعب غزنوی

آپ لوگوں کو کیا ہوگیا؟ آپ ڈالروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، ڈالر کھائیں گے آپ؟ آپ لوگ ڈالر چبا کر کھائیں گے؟ کیا کریں گے آپ؟ مجھے بتائیے آپ!
آپ آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی،کہ اگر انڈیا نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو ہم دیکھ لیں گے؟ آپ کشمیریوں کو مرنے کیلئے چھوڑ دیں گے، کہ وہ کشمیری مارے جائیں؟ میں آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کشمیریوں کا ساتھ دینے کیلئے اب ہمیں میدان میں آنا ہوگا۔

یہ تمام سوال وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے گزشتہ روز ”قومی پارلیمنٹیرینز کانفرنس برائے کشمیر “ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزراء جن میں وزیر خارجہ بھی موجود تھے، اسپیکر سینیٹ رضا ربانی اور باقی سینیٹرز اور ممبران اسمبلی سے کیئے، اس تقریر کے دوران ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور میری آنکھوں میں بھی۔

(جاری ہے)

کیونکہ ایک کشمیری کا درد کشمیری بہتر سمجھ سکتا ہے، اور مسلمان کا درد ایک مسلمان ہی سمجھ سکتا ہے۔

کیونکہ نبی پاک(ص) کی حدیث ہے کہ،
”مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، اگر ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہو تو باقی سارا جسم بھی اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے“
تو ہم اپنا اندازہ کرلیں کہ ہم کشمیریوں کا دکھ ان کا غم کس قدر محسوس کر رہے ہیں؟ وہ کشمیری پچھلے 45 دنوں سے ایک جیل میں قید ہیں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق 350 سے زائد کشمیری لڑکیوں کو اغوا کرلیا گیا، اور سینکڑوں لڑکے غائب کردیئے گئے۔

نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کو شہید کردیا گیا، نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی عصمت دری کی گئی۔کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، اپنے ہی گھروں میں انہیں قید کر دیا گیا۔ ضروریات زندگی کی اشیاء کی ان تک کوئی رسائی نہیں، معصوم بچے بھوک سے بلکتے ہیں اور مریض سسک سسک کر آخری سانسوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوری وادی کو مقتل بنا دیا گیا ہے، جو کوئی بھی پاکستان کے حق میں یا بھارت کے خلاف بات کرتا ہے اسے کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔

کشمیری آج مدد کیلئے پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، اور ہمیں مدد کیلئے پکار رہے ہیں۔ مگر پوری پاکستانی قوم اپنی معمولات میں مصروف ہے، ہمارے اندر سے احساس، انسانیت اور مسلمانیت بلکل ختم ہوگئی ہے۔ کشمیریوں کی پکار سننے کے باوجود ان کو درد میں دیکھنے کے باوجود ہم کچھ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اور ایک طرف محمد بن قاسم ایک عورت کی فریاد پر وہ کہاں سے یہاں آپہنچا تھا۔

مگر آج کے مسلمان کی غیرت کو پتہ نہیں کیا ہوگیا؟ کہ مظلوم کشمیری بہن، ماں اور بیٹی کی پکار سن کر بھی کچھ نہیں کرتے۔
وزیر اعظم پاکستان ابھی تک صرف زبانی کلامی دعوے کرتے جارہے ہیں، مگر عملی اقدام کوئی نہیں۔ اب کہتے ہیں اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی آواز اٹھائیں گے مگر اقوام متحدہ اب تک 24 قراردادیں کشمیریوں کے حق میں منظور کر چکا ہے۔

مگر عمل رتی برابر بھی نہیں ہوا، بس صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہا۔ اب کی بار پھر وہاں کی ٹائم ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ دنیا کمزور کی بات نہیں سنتی ہے اس لیئے وقت ضائع کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے، بلکہ اب کشتیاں جلا کر میدان عمل میں اتر کر کشمیریوں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ اب ہم فیصلہ کن موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں، کیونکہ اگر آج ہم نے کوئی عملی کام نہ کیا تو کل یہ جنگ ہمیں مظفرآباد، لاہور اور سیالکوٹ میں لڑنا پڑے گی۔

 
اب ہمیں اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کشتیاں جلا کر آگے بڑھنا ہوگا، کیونکہ اگر کشمیر کا جہاد آج ناکام ہوا تو بھارت ہمیں پانی کا ایک قطرہ نہیں دے گا۔ اس لیئے بھوک، پیاس اور بزدلی کی موت مرنے کی بجائے جرات کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔اب عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے، بھارت کو اس کی اصلیت دکھانے کی ضرورت ہے۔ میدان میں اترنے کی ضرورت ہے اور کشمیریوں نے جو خون بہایا ہے پاکستان کے نام پر اس خون کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم نے یہ نہ کیا تو دنیا میں جو ذلت و رسوائی ہونی ہی ہے مگر کل رب کی عدالت میں ان کشمیریوں کے گناہگار ہوں گے ہم۔اور اپنی گفتگو کا اختتام بھی راجہ فاروق حیدر کی اس بات سے ہی کروں گا کہ،کشمیری ماں صبح سویرے اپنا دروازہ کھول کر پردہ کے پیچھے سے دیکھتی ہے کہ پاکستانی فوج آگئی ہے کیا ہمیں اس ظلم سے بچانے کیلئے!اگر آج ہم یہ ہی کہتے رہ گئے کہ معیشت کمزور ہے پہلے اسے بہتر کرلیں۔ تو اس کیلئے یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ،
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :