کہیں لوگوں کی کسمپرسی آئین سے اِمیون تو نہیں ہوگئی؟

جمعہ 26 جولائی 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

ہمیں اکثرایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ دوائیوں میں اثر ہی نہیں رہا یا ڈاکٹر نالائق ہوگئے ہیں۔ اسی لئے نزلہ، زکام، بخار جیسی چھوٹی چھوٹی بیماریاں بھی جلد ٹھیک نہیں ہوتیں۔ اپنی اس گفتگو کا نتیجہ ہم عموماََیہ نکالتے ہیں کہ چونکہ دوائیوں میں ملاوٹ ہوتی ہے، اس لیے وہ بے اثر ہوگئی ہیں اور ڈاکٹروں کے مسیحا کی بجائے سوداگر بن جانے کے باعث ان کے ہاتھوں سے برکت اٹھ گئی ہے۔

لوگوں کے اس نظرےئے کو چھیڑے بغیر ایک اور طرح سے بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اِمیون ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ ہوسکتا ہے ہم روایتی دوائیوں کو کئی نسلوں سے استعمال کرنے کی وجہ سے اپنے اندر قوتِ مدافعت ڈیویلپ کرگئے ہوں اور اب یہ دوائیاں ہماری عام بیماریوں کے لیے بھی زیادہ موثر نہ رہی ہوں۔ 
ایسی صورت میں میڈیکل سائنس دوائیوں کی نئی ایجادات کے بارے میں سوچنا شروع کردیتی ہے۔

(جاری ہے)

جی نہیں! یہ دوائیوں پر لکھا گیا کالم نہیں ہے بلکہ میڈیسن میں اِمیون کے مفہوم کو ہم اپنے موجودہ سیاسی ڈھانچے پر فِٹ کرکے دیکھتے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ سیاست یا سیاسی لیڈر میں کسی قسم کی کوئی بھی غلط کاری سامنے آتی تو ایک شور مچ جاتا۔ اس شور کے اثرات مرتب ہوتے اور آہستہ آہستہ وہ سیاسی لیڈر یا سیاسی پارٹی دھول ہوجاتے۔ مثلاََ پاکستان کی سیاست کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھانے والے ابتدائی تقریباََ دس برسوں کو چھوڑ کر اُس وقت سے دیکھیں جب لوگوں کو کچھ کچھ دکھائی دینا شروع ہوا۔

تب سے ہی ہمیں سیاسی غلطیوں کے خمیازے بھگتنے کی کہانیاں ملتی ہیں۔ مثلاََ ایوب خان کے دور میں ذرا سی چینی مہنگی ہوئی یا احتجاجی جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے چند کالجی طالب علم مارے گئے وغیرہ وغیرہ کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ایوب خان عوامی نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔
 ذوالفقار علی بھٹو اپنے اقتدار کے چند برسوں کے اندر اندر ہی بہت زیادہ خود اعتماد ہوچکے تھے۔

انہوں نے سیاسی مخالفین کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگانے کا جو سلسلہ شروع کیا، اسلامی ذہن کے کروڑوں پاکستانیوں کے سامنے تھوڑی سی پی لینے کا اعتراف کیا، 1977ء کے عام انتخابات میں لینڈ سلائیڈنگ وکٹری حاصل کرنے کی کوشش کی یا ایسی ہی بہت سی سیاسی ہیرا پھیریوں کا کفارہ انہوں نے پھانسی گھاٹ پہنچ کر ادا کیا۔
 جنرل ضیاء الحق نے بظاہر کسی اہم وجہ کے بغیر ایک ٹھنڈے مزاج اور شریف طبیعت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو اچانک برطرف کیا تو لوگوں کو اس اقدام سے جھرجھری آگئی اور دیکھا گیا کہ جونیجو کی برطرفی کے بعد سے اپنی موت تک کے آخری چند ماہ انہوں نے سیاسی بدہضمی کے ساتھ ہی گزارے۔

 پھر 1988ء سے 1999ء تک کے گیارہ برسوں پر مبنی ”لکن میٹی“ کا ایک ایسا سیاسی کھیل شروع ہوا جس کے میچ ڈریسنگ روم سے کنٹرول کئے جارہے تھے۔ اِن تمام میچوں میں بھی دو تین سال کے درمیان ہی سیاسی حکومتوں کو تیز تیز سیاست کرنے کی سزا دی جاتی رہی۔ 1999ء کے بعد جب ہوڑمت والے جنرل پرویز مشرف دندنانے لگے، سیاست دانوں کو لیفٹ رائٹ کروانے اور دھونس ڈنڈے کے فیصلوں کے خلاف لوگوں نے قوتِ مزاحمت حاصل کرلی۔

 
اسی طرح 2008ء کے بعد زرداری حکومت، 2013ء کے بعد نواز حکومت اور 2018ء کے بعد عمران حکومت بھی پرانے انجن کے ساتھ بندھنے والی اپنی باری کی نئی نئی بوگیاں ہیں جن کے اندر بند ہوکر عوام چپ چاپ اپنا سفر پورا کررہے ہیں۔ کیا موجودہ سیاسی دور میں پہلے والا ہی سب کچھ نہیں ہورہا؟ مہنگائی کی رفتار خلائی جہاز سے تیز ہے، بجلی اور گیس کا حصول ایسے ہوگیا ہے جیسے کسی بہت بڑے صحرا میں پانی کا حصول، لوگوں کے جان و مال اُتنے ہی غیرمحفوظ ہوچکے ہیں جتنے قدیم دنیا میں بسنے والے اکیلے اکیلے جنگلیوں کے تھے، پاکستان میں دہشت گردی کی ایجاد بم دھماکوں سے ہوئی اُس میں جدت خودکش حملوں سے آئی، رہی سہی کسر شہروں میں ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کرائم نے پوری کردی۔

اِن سب کے ساتھ ساتھ حکومتیں ہیں کہ چلتی ہی جارہی ہیں، اپوزیشنیں ہیں کہ بولتی ہی جارہی ہیں، لوگ ہیں کہ مایوس ہوتے ہی جارہے ہیں، میڈیا ہے کہ کنٹرول ہوتا ہی جارہا ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہورہا۔ کچھ ہونے سے مراد میوزیکل چےئر کی گیم کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن کا ادل بدل نہیں ہے کیونکہ نئے آنے والے کیا کریں گے یا کیا کرسکتے ہیں؟ اُن کے پاس بھی تو یہی میدان اور یہی گھوڑے ہوتے ہیں۔

 لہٰذا یہاں کچھ کرنے سے مراد ایسے اقدامات ہیں جو کبھی کبھار کروڑوں ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے کرلیے جاتے تھے یا اپوزیشن کے خوف سے کچھ ذاتی مرضی کے کام نہیں کیے جاتے تھے۔ اب ایسا بھی بالکل نہیں ہورہا۔ حکومت اور اپوزیشن سٹیج پر موجود ہیں، اپنا اپنا سکرپٹ پڑھ رہی ہیں، ہال بالکل خالی ہے، کوئی ٹکٹ فروخت نہیں ہو رہی، پھر بھی ڈرامہ اپنے طے شدہ وقت تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

وہ اس لیے کہ تقریباََ سب کام آئین کی حدود کے اندر رہ کر ہو رہے ہیں۔ آئین میں بے شمار ایسی گنجائشیں موجود ہیں جن سے اپنی خواہشیں پوری کی جاسکتی ہیں، ان گنجائشوں سے پورا فائدہ اٹھایا جارہا ہے اور اگر کوئی راستہ سمجھ نہ آرہا ہوتو آئینی بحث چھیڑ دی جاتی ہے تاکہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے۔ 
آئین کو ہر کوئی اس حد تک اپنے حق میں استعمال کررہا ہے کہ ڈر لگنا شروع ہوگیا ہے کہ کہیں یہ آئین کسی کے استعمال کا ہی نہ رہے۔

سوچیں تو سہی! کہیں ہمارے سیاسی نظام میں موجود خطرناک جراثیم آئین کی اینٹی بائیوٹک کے سامنے قوتِ مدافعت تو حاصل نہیں کرگئے؟ کہیں لوگوں کی کسمپرسی آئین سے اِمیون تو نہیں ہوگئی؟ کیا نئے تقاضوں اور نئے مستقبل کی خاطر جدید آئین کے لیے اجتہاد ضروری نہیں ہوگیا؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :