ایٹمی جنگ کی دھمکیاں امن نہیں کولڈوار ہیں

پیر 2 ستمبر 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

انسانوں کی طرح جنگوں کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ انہی میں سے ایک ”کولڈوار“ ہے جس کا ذکر سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے بہت عام تھا۔ جونہی سوویت یونین ڈوبا، لوگوں نے سمجھ لیا کہ کولڈوار کا زمانہ بھی ختم ہوگیا۔ کولڈوار کے خاتمے کی بات کرنے سے پہلے اس کے آغاز کی بات کرتے ہیں۔ اب سے ٹھیک سات سو برس قبل یعنی چودہویں صدی میں سپین کا ایک مشہور پرنس ”ڈون جان مینوئل“ ہوگزرا ہے۔

وہ اپنی بہت سی شادیوں کے انتخاب میں اپنی سیاسی اور معاشی ترقی کو ضرور مدنظر رکھتا تھا۔ اس کی شدید خواہش ہوتی کہ اس کی اولاد کا تعلق شاہی خاندانوں سے برقرار رہے۔ وہ اپنے وقت کا امیر ترین اورسب سے طاقتور پرنس بن گیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے عہد کے بادشاہ کے مقابلے میں اپنی کرنسی بھی جاری کردی۔

(جاری ہے)

ڈون جان کو لٹریچر کا بہت شوق تھا۔ اُس کی اِس عادت کو معاشرے میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانے میں لٹریچر یا ادب سے تعلق رکھنے والے معزز اور باعزت نہیں سمجھے جاتے تھے۔

تاہم ڈون جان نے اپنا کام جاری رکھا اور شاعری سمیت 13کتابیں تحریر کیں جن میں سے اب 8 دستیاب ہیں۔ یہ ڈون جان ہی تھاجس نے سب سے پہلے کولڈوار کی حکمت عملی کی نشاندہی کی۔ اُس نے اُس وقت کی مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے ہسپانوی لفظ ”ٹیپڈ“ کا استعمال کیا جس کا مطلب تھا ”نیم گرم“ یعنی ”نیم گرم جنگیں“۔ انیسویں صدی میں جب ڈون جان کی ان کتب کا ترجمہ کیا گیا تو جلدبازی یا ناقص ترجمے کے نتیجے میں ترجمہ کرنے والوں نے ”ٹیپڈ وار“ کا ترجمہ ”کولڈوار یعنی ٹھنڈی جنگیں“ کردیا۔

تاہم یہ لفظ زیادہ عام نہ ہوسکا۔ اس کے بعد برطانیہ کے مشہور ناول نگار ”جارج آروِل“ نے کولڈوار کی اصطلاح اپنے ایک مضمون ”آپ اور ایٹم بم“ میں لکھی جو 19 اکتوبر 1945ء کو برطانوی اخبار ”ٹریبیون“ میں شائع ہوا۔ جارج آروِل نے کولڈوار کی مثال کو اُس وقت کے مغربی بلاک اور سوویت یونین کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے جوڑا۔ اس کے بعد مشہور امریکی سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار ”والٹرلپ مین“ کی ایک کتاب 1947 میں ”کولڈوار“ کے نام سے شائع ہوئی۔

کتاب کی اشاعت کے بعد یہ اصطلاح پوری دنیا میں وبائی بیماری کی طرح پھیل گئی اور 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بظاہر غائب ہوگئی۔ چودہویں صدی کے ڈون جان سے لے کر بیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے مصنفین تک کے نزدیک یعنی آغاز سے لے کر 1945ء تک چھ سو برس کے درمیان کولڈوار کے اجزائے ترکیبی ایک جیسے ہی تھے جس میں ملک ایسی حالت جنگ میں ہوتے ہیں جو براہِ راست جنگ نہیں ہوتی۔

اس میں فریقین معاشی، سیاسی، پراپیگنڈہ، سفارت کاری اور جاسوسی کے نظام کے ذریعے ایک دوسرے پر پراکسی وار مسلط کرتے ہیں۔ اس میں فریقین جنہیں ”سیٹلائٹ ملک“ کہا جاتا ہے عموماً بڑی طاقتوں کے زیراثر رہ کر ایک دوسرے کے خلاف کولڈوار لڑتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اپنے اتحادی سیٹلائٹ ملکوں کو کولڈوار کے لیے معاشی امداد، اسلحہ، فوجی ٹیکنالوجی اور ملٹری ایڈوائزر فراہم کرتی ہیں۔

کولڈوار کی مذکورہ تشریح میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نیا رنگ شامل کیا گیا۔ یعنی ایک طرف سوویت یونین اور اُس کے تعلق دار ممالک، دوسری طرف امریکہ اور مغربی بلاک وغیرہ۔ کولڈوار کی اس جدید تعریف کو سامنے رکھا جائے تو بہت واضح ہو جائے گا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی کولڈوار ختم نہیں ہوئی بلکہ اس لفظ کا مخصوص مقاصد کے تحت باربار دہرانا ختم کیا گیا ہے جبکہ مختلف خطوں میں کولڈوار اب بھی جاری ہے۔

کولڈوار کے فارمولے کو ہم برصغیر میں بھی لاگو کرکے دیکھتے ہیں۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ نوے کی دہائی کے درمیان تک بھارت اپنے ناتواں بھاری بھرکم بے ہنگم جسم کے باعث ڈگمگا رہا تھا اور دھڑام کرکے گرنے ہی والا تھا کہ امریکہ نے آکر معاشی اور فوجی کُشتے کھلانے شروع کردےئے۔ امریکہ اور مغربی بلاک کے نزدیک بھارت کی کسمپرسی پر ترس کھانے سے زیادہ مستقبل کی پیش بندی تھی۔

اس کا مقصد چین کا گھیراؤ تھا۔ پاکستان اور بھارت کی ازلی دشمنی اس ٹارگٹ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ پاکستان اور بھارت کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے امریکہ مختلف کوششیں کرتا رہا لیکن نریندر مودی کے حکومت میں آنے کے بعد بھارت پاکستان کے حوالے سے مہم جوئی کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے اِس خطے میں مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ بھارت کے لاڈ اٹھائے۔ بھارت نے بھی امریکہ کی اس کمزوری کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر چڑھائی کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے۔

راز جاننے والے جانتے ہیں کہ کافی عرصے سے بھارت پاکستان پر کسی بڑی کاروائی کے لیے پرتول رہا ہے لیکن پہل کرنے کے نتیجے میں عالمی ردعمل سے گھبراتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کیمپ پر حملے اور پھر پاکستان کے اندر بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے نام نہاد دعوے کو لے کر بھارت نے عالمی برادری سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا پرمٹ حاصل کرنا چاہا لیکن کچھ عالمی سیانوں نے پاکستان کے شدید ردعمل کے باعث بھارت کو ہوش کے ناخن لینے کا کہا۔

پاکستان میں بعض اطلاعات کے مطابق 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت اب ایک مرتبہ پھر کسی دہشت گردی کی کاروائی کے ڈرامے کا سہارا لے کر پاکستان پر بڑے حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تازہ صورتحال میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ہلکی پھلکی کولڈوار کو مکمل کولڈوار میں بدل دیا ہے۔ کولڈوار کے مندرجہ بالا تاریخی فارمولے کو مدنظر رکھا جائے تو یہاں سب اجزائے ترکیبی پورے ہیں یعنی بھارت پاکستان کو عالمی برادری میں سفارتی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے، آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان کی زراعت تباہ کرنا چاہتا ہے، پاکستانی سیاست میں افراتفری پھیلانا چاہتا ہے، کل بھوشن یادیو جیسے ریاستی جاسوسوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرتا ہے اور پراپیگنڈہ کرکے پاکستان کو بدنام کررہا ہے۔

بھارت امریکہ کا اہم سیٹلائٹ ملک ہے۔ دوسری طرف چین پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ خطے کی بدلتی صورتحال میں کچھ عرصہ قبل ایک حساس تبدیلی یہ آئی کہ روس نے پاک فوج کے ساتھ مل کر پاکستان میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ گویا برصغیر میں کولڈوار کے تمام مصالحہ جات پورے ہیں لیکن کولڈوار کی تاریخ بتاتی ہے کہ بھاری بھرکم اور بے ہنگم پھیلے ہوئے جسم والا سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ بھارت بھی بھاری بھرکم اور بے ہنگم پھیلا ہوا جسم رکھتا ہے۔ اب فیصلہ بھارت کو ہی کرنا ہے۔ جواب پاکستان دے گا۔ جارج آروِل نے لکھا کہ ”ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کا سایہ ایسا امن ہے جو امن نہیں ہوتا، اسے مستقل کولڈوار کہنا چاہیے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :