
میں باعث عبرت ہوں
بدھ 25 مارچ 2015

سید شاہد عباس
"صولت مرزا " کے بیانات نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال تو برپا کیا ہی ہے ساتھ ہی ایک نیا پنڈوڑا باکس کھول دیا ہے ۔
(جاری ہے)
" صولت مرزا" کے بیانات سے پہلے کسی بھی معاملے پر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میڈیا میں مضبوط دفاع کے حوالے سے جانی جاتی تھی۔ لیکن اس ویڈیو پیغام کے بعد رابطہ کمیٹی کے اراکین منظر سے ئب ہی رہے ۔ حیدر عباس رضوی اور بابر غوری صاحب جو ہمیشہ سے ایم کیو ایم کی زبان رہے ہیں اس معاملے میں اس لیے بھی کھل کر میڈیا پہ نہیں آ سکے کیوں کہ صولت مرزا کے بیانات کے بعد وہ ایک فریق بن گئے ہیں۔ رینجرز کے 90 پہ آپریشن کے بعد سے ایم کیو ایم پہلے ہی دباؤ کا شکار تھی اب اس نئی افتاد سے اس دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اضافہ اس صورت میں نہیں کہ ایم کیو ایم پہ تمام الزامات اس ویڈیو پیغام کے بعد سے ہی ثابت تصور کیے جائیں گے۔ بلکہ اس دباؤ میں اضافے کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس دفعہ ایم کیو ایم کو جارحانہ رویہ اپنانے کے بجائے ہوش مندی کے ساتھ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنا ہے۔
ایم کیو ایم کے دفاع میں اس وقت سب سے آگے بیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر سیف ہیں۔ بیرسٹر سیف مشرف دور سے ہی منظر پہ ابھرے ہیں جب کہ بیرسٹر فروغ نسیم ایک قابل اور ذہین قانون دان کی حیثیت سے اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کرتا دھرتا راہنماؤں نے ان دونوں چہروں کا انتخاب یقینا مستقبل کی صورت حال کو بانپ کہ ہی کیا ہے۔ خاص طور پہ بیرسٹر فروغ نسیم صاحب نہ صرف ایک معزز سینیٹر ہیں بلکہ ایک ایسے وکیل کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جو معاملات کو سنبھالنے میں ملکہ رکھتے ہین۔ لیکن ان دونوں حضرات کی پہلی اکھٹی پریس کانفرنس کوئی اتنی حوصلہ افزاء نہیں رہی۔ اس پریس کانفرنس کی سب سے خاص بات یہی تھی کہ وہ یہ معاملہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس کے بارے میں ان کی منطق یہ ہے کہ صولت مرزا پہ دباؤ ڈال کر بیان دلوایا گیا ہے۔
بیشک ایم کیو ایم کی قیادت معاملہ کسی بھی فورم پہ اٹھانے میں حق بجانب ہیں لیکن فرض کریں یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں بھی چلا جائے اور وہاں بھی صولت مرزا یہی بیان دے دیں کہ انہوں نے سب بناء کسی دباؤ کے کہا ہے تو پھر معاملہ کس سمت جائے گا؟ صولت مرزا کے ویڈیو پیغام پر قانونی طور پر جتنی بھی تنقید کی جائے وہ بجا۔ لیکن اس معاملے میں جس بھی فورم پہ جائیں یہ نقطہ سب سے اہم رہے گا کہ صولت مرزا جیسے مجرم ملکی سیاست کار خ پلٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور شاید صولت مرزا نے پہلے یہ باتیں اس لیے بھی نہیں کیں کیوں کہ اسے یقین تھا کہ اسے بچا لیا جائے گا۔ اور جب اسے لگا کہ اب کوئی چارہ نہیں پھانسی کے پھندے سے بچنے کا تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ " خود تو ڈوبے ہیں صنم ، تم کو بھی لے ڈوبیں گی"۔
"صولت مرزا" اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک زلزلے کی مانند ثابت ہو رہا ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سیاست کا رخ تبدیلی کا لبادہ اوڑھ رہا ہے۔ اب اس تبدیل شدہ رخ میں ایم کیو ایم کا کیا کردار ہے اس کا فیصلہ شاید سب سے بہتر ایم کیو ایم ہی کر سکتی ہے۔ کیوں کہ اب شاید ایم کیو ایم کو بطور ایک سیاسی جماعت خود کو مضبوط کرنا ہوگا ۔ کیوں کہ صولت مرزا کے بیانات و الزامات کے بعد جس طرح ایم کیو ایم کی تمام قیادت پس منظر میں چلی گئی ہے یہ یقینا اس جماعت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس جماعت کے قائدین کو نہ صرف خود پر لگے الزامات کو دھونا ہے بلکہ اگر انہوں نے پاکستانی سیاست میں اپنی جگہ برقرار رکھنی ہے تو ایم کیو ایم پربطور جماعت لسانی اور صوبائی جماعت کا جو لیبل لگا ہے اسے اتارنا ہو گا۔ ایسا جذبات سے ہرگز نہیں ہو گا۔ الزامات اس ملک کے سابق صدر پر بھی لگے ہیں۔ ایک منتخب وزیر اعظم پھانسی کے پھندے پہ جھول چکے ہیں۔ لہذا الزامات پہ میڈیا یا اداروں پہ غصہ کرنے کے بجائے اپنے آپ میں موجود خامیوں کو دور کیجیے۔
" صولت مرزا" ایک سیاسی کارکن کے طور پر تمام سیاسی کارکنوں کے لیے ایک مثال ہیں۔ اس نے خود کہا ہے کہ اس سے عبرت حاصل کی جائے۔ یہ پیغام اس کا تمام سیاسی کارکنوں کے لیے ہے جو اپنے قائدین کا ہر جائز ناجائز کام بلا چوں چراں کرنے کو سب سے بڑی خدمت سمجھتے ہیں۔ سیاسی قائدین نہ تو دودھ کے دھلے ہوتے ہیں نہ ہی فرشتے کہ ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی ۔ بطور سیاسی کارکن جب ہمارے لوگ عقل و شعور کی منازل طے کر لیں گے تو وطن عزیز میں سیاست کا ایک نیا رنگ دکھائی دے گا۔ صولت مرزا جیسے کئی کارکن کو اس وقت گمنام قبروں میں پڑے ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ صولت مرزا تھوڑی سی مقبولیت حاصل کر گیا اور اس کو مختلف ادوار میں جیل کے اندر بھی سہولیات حاسل رہیں۔ جن کی وجہ سے میڈیا میں اس کا نام باقی رہ گیا ورنہ وہ بھی کسی گمنام قبر کا مکیں بن چکا ہوتا۔ صولت مرزا آج جس حال میں ہے وہ نہ صرف موجودہ سیاسی کارکنوں کے لیے باعث عبرت ہے بلکہ ایسے نوجوانوں کے لیے بھی ایک سبق ہے جو مستقبل قریب میں پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادار کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کا حصہ بننے سے پہلے ہر سیاسی کارکن کو یہ سوچنا ہو گا کہ سیاست کو اس ملک کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے ۔ ورنہ صولت مرزا کو تو ویڈیو پیغام کی سہولت مل گئی انہیں شاید یہ کہنے کی مہلت بھی نہ دی جائے کہ " میں باعث عبرت ہوں"۔(صولت مرزا کیس کا اگلا حصہ شاید عزیر بلوچ ہو گا)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.