
جمہوریت کو کیا خطرہ ہے؟
جمعرات 9 نومبر 2017

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
جیسے احمدی نژاد جیسا راہنما ایک مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود ایران جیسے ملک کا نہ صرف سربراہ بن گیا بلکہ اُس نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں بھی ڈالیں۔
اور قائد اعظم کی مثال تو سب مثالوں میں اولین ہے کہ جنہوں نے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔جن ممالک نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کیے ، کوئی شک نہیں کہ وہاں اقتدار نہ صرف کانٹوں کی سیج ہے بلکہ اُن ممالک میں جمہوریت، ادارے اور ریاست کے تمام ستون اس قدر مضبوط ہیں کہ شخصیات کے آنے جانے سے نظام پہ فرق نہیں پڑتا۔ اس کی سب سے واضح مثال جاپان کی ہے کہ جہاں آئے دن وزیر اعظم کی تبدیلی کے باجود پوری دنیا میں میڈ ان جاپان معیار کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور اس ملک کی ترقی پہ بھی حرف نہیں آ رہا۔ مگر پاکستان میں پانی اُلٹا بہتا ہے۔ یہاں جمہوری اداروں سے زیادہ شخصیات کو اس قدر مہان بنا دیا جاتا ہے کہ پورے کا پورا نظام کسی مخصوص شخصیت یا خاندان سے وابستہ کر لیا جاتا ہے اور کسی بھی شخصیت یا خاندان کے خلاف بات کو نظام کے خلاف بات تصور کر لیا جاتا ہے۔ جن شخصیات کو واقعی نظام سے تشبیع دی جانی چاہیے تھی وہ ہم نے نہیں کیا جیسے قائد اعظم جنہوں نے اپنی بیماری تک اس ملک کی خاطر چھپا لی ۔ لیاقت علی خان جن کے کپڑے تک وقت شہادت بوسیدہ تھے۔ اور اُن شخصیات کو ہم نے نظام کا متبادل بنا دیا ہے جن کا اپنا کردار مثالی نہ تھا نہ ہونے کی امید ہے۔
99ء میں سیاسی حکومت کی بساط لپٹ جانا یقینا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا، مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تاثر تقویت پاتا گیا کہ سیاسی حکومت کی بساط لپٹنے میں بھی بہت حد تک ہاتھ سیاسی راہنماؤں کا اپنا ہی تھا۔ آج تک جتنی دفعہ بھی سیاسی حکومتوں کا تختہ اُلٹا گیا اُس سے سیاسی راہنماؤں نے سبق حاصل کرنے کے بجائے اس کو آئندہ سیاست کا موضوع بنا لیا۔ آج بھی حالات اُسی ڈگر پہ چل رہے ہیں۔ محترم نواز شریف صاحب کی نااہلی کے بعد ایک نادر موقع تھا کہ نواز شریف خود کو تاریخ میں جمہوریت کی سر بلندی کے ایک کردار کے طور پر امر کر لیتے ۔ مگر انہوں نے اپنی نااہلی کو ذاتی انا کا مسلہ ایسے بنایا جیسے اگر وہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں رہتے تو خدانخواستہ پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔ سفرِ جی ٹی روڈ کے دوران اُن کا رویہ ، بولنے کا انداز، لب و لہجہ ایسا تھا کہ جیسے وہ پاکستان کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس بحث سے بالاتر کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ درست تھا یا غلط،ضرورت اس امر کی تھی کہ نواز شریف اس بحرانی کیفیت میں ایک ایسا کردار بن کر اُبھرتے جو جمہوریت کی سر بلندی کو اپنی ذات سے اہم سمجھتا۔ مگر فیصلے کے بعد کی محاذ آرائی سے سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کھل کے سامنے آ رئے ہیں۔ جمہوریت کو خطرہ نہ تو عدالتی فیصلے سے تھا نہ کسی اور قوت سے بلکہ جمہوریت کو حقیقی خطرات تو سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویوں سے ہیں۔ جس طرح آئینی ترامیم اور عدالتی پیشیوں کو متنازعہ بنایا گیا ہے حقیقت میں اس طرز عمل کو جمہوریت سے خطرات در پیش ہیں۔ عدالتوں کو سیاسی اجتماعات کا مرکز بنا لینا نہ جانے جمہوریت کا کون سا رخ ہے۔ جمہوریت تو قائم و دائم ہے عدالتی فیصلے کے بعد ایک اور سیاسی راہنما وزیر اعظم بن چکا ہے تو جمہوریت کو اس سیاسی تبدیلی سے کیا خطرہ ہے؟ جمہوریت کو حقیقی خطرہ تو یہ ہے کہ شخصیات پرستی کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ ایک راہنما پاکستان میں نہ ہوتے ہوئے بھی حلقے کا ایک بھی دورہ ، ایک بھی جلسہ کیے بناء انتخاب جیت جاتا ہے۔ جمہوریت کو خطرہ تو اس بات سے ہے کہ سیاسی لوگ خود کو کسی بھی قسم کی جواب دہی سے مستثنیٰ سمجھنے لگے ہیں۔ اُن کے نزدیک مملکت پہ اُن کا حق ایسے ہی ہے جیسے کوئی وراثتی جائیداد۔ عدالتی پیشیوں، ان ہاؤس تبدیلی، اور سیاسی نظام کے تسلسل سے تو جمہوریت کو ہرگز خطرہ نہیں ہو سکتا۔ جب شخصیات خود کو نظام سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیں حقیقتاًاُس وقت ہی جمہوریت کو خطرہ در پیش ہوتا ہے۔ جن انداز سے غیر موزوں لوگوں کو وزارتوں کی بندر بانٹ میں شامل کیا اُس سے جمہوریت کو خطرہ اس لیے ہے کہ پاکستان کی عالمی سطح پہ جگ ہنسائی کا سبب ہو رہا ہے۔ جس کی تازہ مثال وزیر خارجہ کے حالیہ متنازعہ بیانات ہیں۔
کیا جمہوریت کو خطرات محترم شاہد خاقان عباسی کے وزیر اعظم بن جانے سے لاحق ہو گئے ہیں؟ کیا جمہوریت کو خطرات اِن ہاؤس تبدیلی سے در پیش ہیں؟ کیا مدت پوری کرتی اسمبلی سے جمہوری نظام کو خطرات کا سامنا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یقینا جمہوریت کو خطرات سیاسی پارٹیوں میں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری سے لاحق ہیں کہ ایک شخصیت کے منظر سے ہٹنے کو ملک کی تباہی گردانا جا رہا ہے، مطلق العنانیت اس سے پہلے بھی سیاسی راہنماؤں کی سوچ میں رہی ہے مگر آج وہ تاریخ کا حصہ ہیں اور پاکستان آج بھی قائم و دائم ہے۔ جمہوریت کو آج نہ عدالتی فیصلوں سے خطرہ ہے نہ کسی مخفی قوت سے بلکہ جمہوریت کے لیے خطرہ صرف سیاسی راہنما خود ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.