پی سی تھری اورین، اہم کیوں تھا۔۔۔

جمعہ 8 مارچ 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

آپ کو یاد ہو گا کہ پی این ایس مہران پہ ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں دو طیاروں کو نشانہ بنایا گیا گیا۔ یہ دونوں طیارے پی 3 سی اورین تھے۔ اور اس وقت ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے تھے یہ یہ جانتے تھے کہ یہ دو طیارے نشانہ بننے پہ اس حملے سے ہونے والے نقصان کو بہت زیادہ کیوں گردانا جا رہا ہے۔ اور شاید اس حملے سے قبل اس مخصوص طیارے کا نام بھی کم لوگوں نے سنا ہو گا۔

کیوں کہ عام طور پر ہم پاک فضائیہ کے جنگی طیاروں کو ہی ملکی دفاع کی ضمانت میں اولین گردانتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس جہاز کا نام نہ صرف ہمارے لیے نیا تھا۔ بلکہ پہلی دفعہ منظر عام پہ بھی آیا تھا(یعنی عام آدمی تک یہ نام پہلی دفعہ ہی پہنچ رہا تھا)۔ اور اکثریت ہم میں سے اس بات پہ حیران تھے کہ یہ بھلا کیا تک ہوئی کہ ان دو طیاروں کو ہی نشانہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)


لیکن دشمن ہوا میں تیر نہیں چلاتا۔ اُس نے چن کے اس مقام پہ نشانہ بنایا بنایا جہاں یہ طیارے موجود تھے۔ یہ طیارے کرتے کیا ہیں۔ ان طیاروں کی اہمیت کیوں ہے۔ ان طیاروں میں ایسا خاص کیا ہے۔ کیوں ان طیاروں کی تباہی کے بعد پاک بحریہ نے سمندری حدود کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے۔ اور کیا وجہ تھی کہ انہیں بیان جاری کرنا پڑا کہ ہماری سمندری حدود کے دفاع کی صلاحیت آج بھی ویسی ہے جیسے اس حملے سے پہلے تھی۔


پاکستانی پانیوں کے قریب آنے والے بھارتی آبدوز کا پاک بحریہ نے نہ صرف سراغ لگایا ہے بلکہ اُسے واپس جانے پہ بھی مجبور کر دیا ہے۔ اور اس حققیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جس طرح بھارت نے بالاکوٹ کی فرضی سرجیل اسٹرائیک کو اپنی کامیابی سے تعبیر کیا تھا ویسا ہی طرز عمل یہاں بھی اختیار کیا جانا تھا۔ بالاکوٹ کی فرضی سرجیل اسٹرائیک میں گرا پے لوڈ لیکن پاکستان کی فضائی حدود میں کچھ وقت گزار کے واپس چلے جانے کو بھی بھارت نے اپنی کامیابی سے تعبیر کیا (بے شک پاک فضائیہ نے ان کو نشانہ نہیں بنایا اور انہیں واپس جانے پہ مجبور کیا)۔

پاکستان نے حالات میں مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو نشانے پہ ہونے کے باوجود نشانہ نہ بنایا۔ لیکن اسے پاک فضائیہ کی صلاحیت پہ سوال اُٹھانے کے لیے استعمال کیاگیا۔ اور ہمارے اپنے لوگوں نے بھی اس پہ پاک فضائیہ پہ دبے دبے لفظوں میں تنقید شروع کر دی۔ جس کا جواب ایک دن بعدہی دے دیا گیا۔ یعنی بالاکوٹ میں کچھ لمحے پاکستان کی فضائی حدود میں رہنا بھی دشمن کی کامیابی تھی۔

مصلحت کوئی بھی تھی نشانہ نہ بنانے کی لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ جو واویلا انہوں نے کیا وہ اُن کا بھی حق تھا۔
 یاد رہے کہ اطلاعات کے مطابق بھارتی آبدوز نے خود کو چھپانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس میں اُسے ناکامی ہوئی(حملہ کرنا تو آبدوز کا مقصد تھا ہی نہیں، صرف پاک بحریہ سے پوشیدہ رہنا ہی کامیابی تھی)۔ معلومات کا حصول یقینی طور پر بھارتی آبدوز کا مشن تھا۔

اور خاموشی سے واپس چلے جانا اُس کی کامیابی ہوتی۔ لیکن پاک بحریہ نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اور بھارتی بحریہ کی یہ ناکامی ہے کہ جدید آلات سے لیس آبدوز بھی پاک بحریہ کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ فضائیہ نے چھ ٹارگٹس لاک کیے ان کو انگیج نہیں کیا۔ یہ لاک کرنا ماہرین کے مطابق انگیج کرنے سے بڑی کامیابی ہے۔ اسی طرح آبدوز کا سراغ لگا لینا اس کو نشانہ بنانے سے بڑی کامیابی ہے کہ ان کو پاک بحریہ کی صلاحیت کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔

فرض کیجیے یہ بھارتی آبدوز بناء ہماری بحریہ کی نظر میں آئے واپس بھارت پہنچ جاتی۔ اور آج نہ صرف بھارتی میڈیا اسے کامیابی سے تعبیر کر رہا ہوتا۔ بلکہ عالمی سطح پہ بھی ہماری ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا(یہ امر ذہن نشین رہے کہ جب تک ہماری فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو نشانہ نہیں بنایا تھا عالمی ردعمل حیران کن حد تک خاموشی کے مترادف ہی تھی، لیکن جیسے ہی پاک فضائیہ نے اپنی دھاک بٹھا دی، پوری عالمی برادری کے نہ صرف بیانات آنا شروع ہو گئے بلکہ امن قائم کرنے پہ زور بھی دیا جانے لگا) ۔


اب واپس آتے ہیں پی 3 سی اورین اور بھارتی آبدوز کی جانب، کہ یہ طیارہ اہم کیوں ہے اور دشمن نے کچھ عرصہ قبل اس طیارے کو ہی خاص طور پہ نقصان کیوں پہنچایا۔ اور اس نقصان پہنچانے کی کڑیاں ہم بآسانی ملا سکتے ہیں کہ اس طیارے کی تباہی سے فائدہ ہوا کس کو۔ اسی طیارے نے ہوائی جائزے کے دوران اس آبدوز کو ڈھونڈا۔اور جدید آلات کے باوجود یہ آبدوز پی تھری سی اورین سے اوجھل نہ رہ سکی۔

(اس پورے واقعے کی ویڈیو ثبوت ہے کہ ااس آبدوز کو نشانہ کتنی آسانی سے بنایا جا سکتا تھالیکن اُسے صرف اپنی سمندری حدود سے دور کر دیا گیا) اور یہ طیارے سمندری حدود کی حفاظت کے لیے بطور خاص زیادہ وقت کے لیے اڑان بھرنے کی خصوصی صلاحیت رکھتے ہیں۔یوں کہہ لیجیے کہ یہ طیارے سمندری حدود کے دفاع کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔

اب آپ دماغ میں پی این ایس مہران حملے کو یاد کیجیے جہاں یہی دو طیارے نشانہ بنے تھے۔ تو آپ کے لیے گتھیاں سلجھانے میں وقت نہیں لگے گا کہ ان دو طیاروں کو ہی کیوں نقصان پہنچانا مقصد تھا۔ وجہ یہی تھی کہ ہماری سمندری حدود کی حفاظت میں دراڑ ڈالی جا سکے۔اور ہماری جب سمندری حدود کے دفاع کی صلاحیت کم ہو جائے گی کہ آسانی سے اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا دشمن کے لیے آسان ہو جائے گا۔

جو کہ ممکن نہیں ہو پایا۔
دشمن ایک دن میں فیصلہ نہیں کرتا چال چلنے کا۔ بلکہ وہ سالوں پہلے منصوبہ بندی کرتا ہے بات صرف ایک پی این ایس مہران حملے کی ہی نہیں ہر دہشت گردانہ حملے کے پیچھے ایک مکمل سوچ کارفرما ہے۔ لیکن ہمیں اپنے اداروں پہ بھروسہ ہے۔ اپنی افواج پہ یقین ہے کہ انہوں نے نہ صرف ہماری حفاظت کو یقینی بنایا ہے بلکہ ان میں صلاحیت ہے کہ وہ مشکل سے مشکل دشمن سے ٹکر لے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :