پولیس کا فرض، صرف خوف

پیر 16 ستمبر 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

معاشرہ ترقی کرتا ہے جب انصاف کا بول بالا ہو۔ جب قانون کی نظر میں سب برابر ہو جائیں۔ جب عدالتیں وقت پر فیصلے کرنا شروع کر دیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ وطن عزیز میں اس وقت ان تینوں معاملوں میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انصاف آپ کی دہلیز پہ ایک نعرہ تو ہے لیکن اس نعرے کی عملی سطح پہ افادیت منتقل کرنے میں شائد ابھی کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں کیوں کہ انصاف کی راہ میں سہولیات سے زیادہ ہمارے ہاں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔

قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، یہ آپ کو اخبارات و تقاریر میں سننے کو تو بکثرت ملتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں صورتحال اس کے مکمل برعکس ہے۔ قانون طبقاتی تقسیم کے درمیان گھن چکر بنا ہوا ہے۔ عدالتیں وقت پہ فیصلے کریں، اس بات کی یقین دہانی بھی ہمیں بسا اوقات کروائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ایسا ہونانہ جانے کیوں ممکن نہیں ہو پا رہا اور ایسی مثالیں موجود ہیں ملزمان لقمہء اجل بننے کے بعد بے قصور ثابت ہوئے۔

نسلیں گزر جاتی ہیں کیسوں کے فیصلے نہیں ہوتے۔ بطور مجموعی یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ قانون و انصاف کی راہدرایوں میں راوی فی الحال چین کی صورتحال نہیں لکھ رہا۔
ریاست جن اُمور کی ذمہ دار ہوتی ہے ان میں سے کوئی ایک ذمہ داری بھی ایسی نہیں جس پہ کہا جا سکے کہ وہ پوری طرح ادا ہو پا رہی ہے۔ اور افسوس کا پہلو یہ ہے کہ ریاست اس جانب مکمل توجہ بھی نہیں دے رہی۔

معاشرے میں امن و عامہ کی صورت حال بحال رکھنا ہو۔ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہو۔ جرائم پہ قابو پانا اور مجرموں کو سزا کے مراحل تک پہنچانا ہو۔ ہر موقع پر پولیس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ معاشرے کے افراد اور پولیس کے درمیان ہم آہنگی تو دور کی بات رابطہ تک مشکل سے ناممکن کا سفر طے کر رہا ہے۔ اور فیصلہ ساز حیران کن طور پر اس مسلے کی جانب توجہ دینے سے گریزاں ہیں۔

ہم ایک صلاح الدین کو رو رہے ہیں۔ یہاں تو نہ جانے کتنے صلاح الدین معاشرتی بے حسی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ نقیب اللہ محسود ہو یا سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال ہو یا صلاح الدین کیس، دعویٰ ہمیشہ سننے کو ملتا ہے کہ اس سانحے کو ٹیسٹ کیس بنا لیا جائے گا۔ لیکن نہ جانے یہ ٹیسٹ کیس کا نتیجہ کب آئے گا کہ جس سے پولیس کے رویوں میں بہتری سامنے نظرآنا شروع ہو جائے گی۔


آپ تھانے کی عمارت پہ، قیدیوں کو لانے لے جانے والی گاڑی پہ، پولیس گشت کی پک اپ پہ اکثر ایک جملہ پڑھتے ہوئے گے، نفرت جرم سے مجرم سے نہیں، لیکن صلاح الدین کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں ہو سکا۔ ہمارے معاشرے میں جرائم کی ایک بہت بڑی شرح رپورٹ نہیں ہو پاتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پولیسینگ کا نظام تو چوکی سسٹم کے تحت گلی محلوں، گاؤں دیہات تک پہنچ رکھتا ہے تو پھر ایسا کیوں ہے۔

لوگوں میں پولیس کے حوالے سے ایک خوف کی فضاء ہے جس کی وجہ سے وہ حق پہ ہوتے ہوئے بھی پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ صلاح الدین کی ٹوٹی ہڈیاں، اور ٹانکے لگے بدن کو ایک لمحہ سوچیے، کیا کوئی ذی عقل و شعور اپنے جائز کام کے لیے بھی پولیس کے پاس جانے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ ایک بودی سی دلیل دی جاتی ہے کہ سب پولیس والے ایسے نہیں۔ اس جملے کو تھوڑا سا تبدیلی کر لینا چاہیے کہ اکثریت پولیس والوں کی ایسی ہی ہے۔

اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ برا ہونے یا کرپٹ ہونے کا ٹھپہ اپنے خاندان سے لگوا کے آئے بلکہ ان کو یہ بوسیدہ نظام خراب کر دیا ہے۔ قمیض شلوار پہنے ایک شخص گلی سے گزر رہا ہوں۔ وہ پولیس کا بڑے سے بڑا عہدیدار ہو اس کی چال میں ایک الگ معاشرتی پہلو ہو گا۔ لیکن وردی پہنتے ہی نہ صرف اس کا رویہ بدل جاتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو حاکم تصور کرنے لگتا ہے۔

گورے کا دیا ہوا پولیس سسٹم ابھی تک ہماری جان نہیں چھوڑ رہا۔ اصطلاحات کے نام پہ بہت پاپر بیلے گئے لیکن حقیقی معنوں میں اصطلاحات نہیں آ سکیں۔ اور لوگ خوف کی ایسی تنگ گلی میں چلے گئے کہ پولیس پہ سے اُن کا اعتماد اُٹھ گیا۔ پولیس کے نظام میں بنیادی خامی،اوئے سے آپ تک ہے۔ پولیس کا جوان یہ سوچنے کے بجائے وہ عوام کا نوکر ہے ، یہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ اس میں ایسے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ عام عوام سے اعلیٰ و ارفع ہو گیا ہے۔

یہ سوچ جب تک ان کے ذہنوں سے کھرچ کے نہیں نکالی جائے گے صلاح الدین جیسے سادہ لوح افراد اس نظام کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔
صلاح الدین نے اس نظام کو زبان چڑائی تھی۔ وہ چڑا رہا تھا اس نظام کو کہ تم تبدیل کیوں نہیں ہو رہے۔ اس نے اس نظام سے سوال کیا تھا کہ تم نے اتنی خرابی کہاں سے سیکھی ہے۔ یہ عام افراد کی سانسیں چھیننے اور بڑے مجرموں سے پہلوتہی کرنا تم نے کہاں سے سیکھا ہے۔

اس کے سوال میں کچھ ایسا نہیں تھا کہ اس کی زبان بند کردی جاتی ۔ لیکن یہ نظام شاید وطن عزیز کو ایسے چمٹا ہوا ہے کہ اسے یہ سوال گوارا نہیں ہوا۔ اس نے صلاح الدین کو سبق سکھانا تھا، اور سبق سکھا دیا۔ نظام کہ شاید سوال کرنا پسند نہیں۔ اسی لیے اس نے حدِ ادب کا نعرہ لگاتے ہوئے زباں بندی کے احکامات صادر فرما دیے۔
نعرہ ء زباں زدِ عام میں تھوڑی سی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی کے بجائے ہونا چاہیے، پولیس کا ہے فرض، صرف خوف۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :