فرض کیجیے۔ آپ کا بیٹا ہو۔ ہسپتال لے جائیں۔ ہسپتال پہنچیں تو معلوم ہو جو بیماری اُسے ہے اُس کی دوا ہی موجود نہیں ہے۔ آپ بہت بھاگ دوڑ کریں لیکن دوا تو دور کی بات، آپ کو ہسپتال میں داخلے کی ہی اجازت نہ ملے۔ آپ بھاگ دوڑ کر کے تھک ہار کے بیٹھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ بیٹے کی زندگی ہی باقی نہیں رہی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ۔ اس سے آگے بھلا کیا تصور کیا جا سکتا ہے ۔
ایک باپ کی زندگی میں تو اس سے آگے کا دُکھ ہے ہی نہیں۔ مگر ذرا رُکیے۔ یہاں تک ایک مرتبہ ہم نے فرض کیا۔ اب سوچ کے زاویے کو ایک قدم آگے بڑھائیے۔ بیٹا چلا گیا۔ اُس کی لاش کے پاس بیٹھ کے آپ نے بین بھی کر ڈالے۔ لیکن بین کرنے سے معاملہ کہاں منطقی انجام تک پہنچتا ہے۔ آپ آنسو صاف کرتے ہیں۔ آنسو صاف کرتے ہوئے بیٹے کی لاش پہ کپڑا ڈالتے ہیں۔
(جاری ہے)
اورپہلے آپ ہسپتال کی سرکاری ایمبولینس کے لیے منتیں کرتے ہیں، لیکن سرکاری ایمبولینس یا تو خراب ہے یا کسی بڑے کے استعمال میں ہے۔
اب آپ پرائیویٹ ایمبولینس والے کے ترلے کرتے ہیں کہ وہ آپ کے بچے کی لاش کو آبائی جگہ پہ پہنچا دے۔ بھئی اب پرائیویٹ ایمبولینس والوں نے اتنی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ کوئی خدا واسطے تو اتنی مہنگی گاڑیاں نہیں خریدی ہوئیں۔ بھاؤ تاؤ شروع ہو جاتا ہے۔
یاد رہے لاش اُسی طرح ڈھکے ہوئے، معاشرے سے کچھ باتیں کہے جا رہی ہے۔ ایمبولینس ایک سے دوسری، دوسری سے تیسری، تیسری سے چوتھی۔
لیکن بات نہیں بنتی ۔ کہیں سرے سے انکار اور کہیں بات نہیں بنتی۔ ایک جگہ کچھ بات بنتی نظر آتی ہے تو آپ کو امید ہو جاتی ہے کہ بچے کی لاش یقینی طور پر آبائی جگہ آسانی سے پہنچ جائے گی۔ لیکن بات دو ہزار روپے پہ آکے رک جاتی ہے۔ منتیں ایک طرف کھڑی ہیں قطار بنائے۔ ترلے دوسری جانب اپنا سا منہ لیے بیٹھے ہیں۔ لیکن ایمبولینس کا ڈرائیور ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
دو ہزار سے ایک آنہ کم نہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ جیبیں آپ ٹٹولیں تو ایک دھیلا نہیں پاس، چہ جائیکہ دو ہزار روپے۔ دوبارہ افسردگی گھیر لیتی ہے۔ ماتم زدہ چہرے پہ پریشانی نمودار ہوجاتی ہے۔ آپ دوبارہ بچے کی لاش کے پاس جاتے ہیں۔ اب آپ کے ماتم کی وجہ یہ نہیں رہتی کہ آپ کا بچہ مر گیا ہے۔ بلکہ اسے لے جایا کیسے جائے یہ پریشانی کی وجہ ہے۔ ٹوٹی پھوٹی بائیک ہے۔
بادل نخواستہ اس پہ لاش لادتے ہیں(معذرت خواہ ہوں ، دلی رنج کے ساتھ یہ لفظ دامن تحریر میں لانے کی جسارت کی ہے کہ آج تک بائیک پہ لاشوں کو لانے لے جانے کا سنا نہیں )۔ آدھے راستے میں بائیک غیر متوازن ہوتی ہے اور ایک لاش کے ساتھ دو اور لاشیں زمین پہ ہیں اب۔ ایک بچے کی لاش، ایک اس کے باپ کی لاش جو ایمبولینس کے پیسے نہیں دے سکا۔ اور ایک بچے کے چچا کی لاش جو کسی نہ کسی طرح لاش کو سنبھالا دے رہا تھا۔
شاید قدرت ان لوگوں کو شرمندگی سے بچانا چاہتی تھی کہ کس منہ سے بچے کی لاش کو موٹر سائیکل سے اتاریں گے۔ حقیقتاً تو یہ شرمندگی مکمل طور پہ ریاست کو ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔
اس کہانی کا پہلا حصہ کچھ یوں ہے۔۔۔ پہلے آپ نے فرض کیا اب اس کو حقیقت میں دیکھتے ہیں۔ ایک ماں ہے ۔ اُس کے بچے کو کتے نے کاٹ لیا ہے۔ تعلق اس کا اس علاقے سے ہے جہاں قبروں کے ساتھ بھی لوگوں کی عقیدت ایسی ہے کہ لوگ آج بھی ووٹ قبروں کے مکینوں کے نام پہ حاصل کرتے ہیں۔
لاڑکانہ۔بچے کو کتے نے کاٹ لیا۔ وہ ماں کی گود میں ہچکیاں لے رہا ہے۔ اصل میں تو نظام ہچکیاں لے رہا تھا۔ بچہ ہچکیاں لے رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے سرکاری ہسپتال کے پاس کتے کے کاٹنے کی ویکسین ہی موجود نہیں ہے۔ آپ ایک لمحہ رکیے اور سوچیے۔ اٹھارہویں ترمیم ہوئی، اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس آ گئے۔ حکومت صوبے کی جیے جیے جیے بھٹو کا نعرہ لگاتے تھک نہیں رہی۔
لیکن عوام کیسے جیئیں، اس جانب شاید دھیان کرنے کے لیے ان کے پاس فرصت نہیں۔ جمہوریت کو خطرہ ہے ، راہنما پکڑ میں ہیں۔ لیکن عوام کاقصور کیا ہے کوئی بتانے کو تیار نہیں۔ بچہ ماں کی گود میں دم توڑ دیتا ہے۔ بے حس معاشرے میں، غلامانہ سوچ جیت جاتی ہے۔ عوام ہار جاتی ہے۔ ماں کے پاس حل نہیں کہ وہ اپنے مرتے بچے کو بچا سکے۔ ہاں اُس کے پاس آنسو موجود ہیں اور وہ وافر مقدار میں بہا رہی ہے۔
اور کر بھی کیا سکتی ہے۔
اب کہانی کے دوسرے حصے کو ملاحظہ کیجیے۔ دوسرے حصے کو بھی ہم نے فرض کیا تھا۔ لیکن حقیقت کے دائرے میں اس حصے کو دیکھتے ہیں۔ بچہ اپنی سانسیں پوری کر چکا ہے۔ باپ کو لاش لے جانے کے لیے ایمبولینس میسر نہیں۔ ہسپتال کی ایمبولینس میں پٹرول نہیں۔ اور پرائیویٹ ایمبولیس مافیا سے بات بن نہیں سکتی۔ بائیک پہ لاش لے جاتے ہوئے بچے کا والد اور چچا بھی حادثے کا شکار ہو کے لقمہء اجل بن گئے۔
ہم کس کو روئیں۔شکار پور کے میر حسن ابڑو کو کہ جو ماں کی گود میں ریاست کی غیر ذمہ داری پوری نہ کرنے کی بھینٹ چڑھ گیا یا ہم روئیں موہن کو جو خود تو گیا لیکن ایسے گیا کہ اس کے لاشے کے ساتھ بابا اور چچا بھی گئے۔ ہم کس کس کو روئیں۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم اس نظام کا نوحہ پڑھیں۔ ہم اس بوسیدہ معاشرے کا ماتم کریں۔ یہاں تو لاشیں بھی کاروبار کا باعث ہیں۔
ہم یہاں تو سینہ چوڑا کر کے زمین پہ چل لیں گے لیکن کیا میر حسن اور موہن زمین کے اندر جانے پہ ہمارا گریباں نہیں تھامیں گے ۔ کیا ہمیں یہ نہیں کہیں گے کہ ریاست تو ماں کے جیسی تھی ، پھر اس ریاست نے ہمارے لاشے بھی پامال کیوں کیے۔ کیا ہم اپنا گریباں چھڑا سکیں گے۔ نہ جانے ریاست ماں کے جیسی کب ہو گی۔ جب ہم بھی اس بے حسی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے ، شاید اس وقت۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔