
قاتلوں کے چہرے پہ نقاب کیوں؟
جمعرات 23 جنوری 2020

سید شاہد عباس
عرصہ ہوا ایک کالم لکھا کہ ''پاکستان کا ریپ''۔ وہ بھی ایک ننھی کلی کے حوالے سے تھا۔ لیکن اخبار نے یہ کہہ کے شائع نہیں کیا کہ کالم کا عنوان بہت سخت ہے۔
(جاری ہے)
مجھے بتائیے کیا پورے معاشرے کا ریپ نہیں ہوتا ایسے ننھی کلیوں کو مسل دینے سے؟ کل کو اسی بچی نے ماں بننا تھا، ایک نسل کو پروان چڑھانا تھا تو کیا ایک پوری نسل کا ریپ نہیں ہوا؟
ابھی تفتیش ہو رہی ہے ایک قاتل گرفتار ہو چکا ہے۔
حیرت ہے اس معاشرے پہ جو ایسے واقعات کو چند دن بعد بھول جاتا ہے۔ زینب الرٹ بل آ گیا ہے سب شادیانے بجا رہے ہیں۔ لیکن معاشرے کے اندر سے اس حیوانیت کو کیا صرف ایسے بل لانے سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنسی درندے ایسے بل لانے سے دندنانا چھوڑ دیں گے؟ کیا ایسی کلیاں مسلی جانا رک جائے گا؟ حیرت ہے کہ اگر ہم صرف ایک بل لانے کو اپنی کامیابی تصور کیے بیٹھے ہیں۔ اگر ان جنسی درندوں کو قابو کرنے کے لیے بل کافی ہوتے تو اب تک کتنے قانون بنے جن پہ عمل درآمد ہونا ہی جوئے شیر کھود لانے کے مترادف ہے۔ جناب! سزا و جزا کا تصور عملی طور پہ نافذ کیجیے۔ آپ ایسے درندوں کو صرف سزائے موت نہیں بلکہ ایسی دردناک سزائیں دے کر مارئیے کہ جو پیچھے ایسی سوچ اپنانے کا سوچیں بھیی تو ان کے رونگٹھے کھڑے ہو جائیں۔ آپ اس قدر سزا کا نظام تیز رفتار کر دیجیے کہ مجرم پکڑا جائے اور چند دن بعد تفتیش مکمل کر کے اس کو ایسی سزا دیجیے کہ لوگ اس کی قبر تک کو جوتے مارتے رہیں کہ اس نے ایسا فعل کیا گیا۔
ہمارا معاشرہ بظاہر ترقی کے دعوؤں کے باوجود اس ابتری کی طرف جا رہا ہے کہ الاماں۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں جنگل کے معاشرے کی طرح اندھیرا ہوتے ہی لوگ اپنی کلیوں کو سینے سے لگا کے کھڑکیاں دروازے بند کرنے کو دوڑیں گے۔ یہ معاشرہ ہماری بے حسی کی تصویر ہے۔ ہم نہ جانے کیسے اس طرح کے واقعات کو ایک ذات پہ رونما ہونے والا حادثہ سمجھ کے نظر انداز کر دیتے ہیں کچھ دن بعد ہی۔ ہم سے یہ ننھی کلیاں روز قیامت سوال کریں گی کہ ہم کو پر امن معاشرہ دینے کا وعدہ آپ نے کیا تھا۔ ہمیں معاشرے میں سکون و محبت کا گہوارا ہونے کا وعدہ بھی آپ کے جھوٹے وعدوں میں شامل تھا۔ ہم ایک زینب کے بعد اگلی زینب کا انتظار کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم ایک عوض نور کے مسلے جانے کے بعد اخبارات میں کھل کے بیانات دیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پہ ٹسوے بناتے ہیں کہ ہمیں معاشرے میں بہتری نہیں بلکہ اپنے عہدے اپنی حاکمیت کو مضبوط کرنے کے لیے ایسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ لیکن اگر واقعی کوئی خلوص سے کام کرنا چاہے تو نہ جانے ایسے سانحے پہ بیان دینے کی بھی اس مین طاقت کیسے رہتی ہے اور وہ اُٹھ کھڑا کیوں نہیں ہوتا ایسے ظالموں کے چہروں سے نقاب اتارنے کو اور انہیں معاشرے میں عبرت کا نشان بنانے کو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.