قرنطینہ قید تنہائی نہیں ہے

اتوار 19 اپریل 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

صفائی کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے ۔ماحول انتہائی صاف ستھرا ہے۔ جراثیم کش محلول سے صفائی کی جاتی ہے۔ صفائی کرنے والا عملہ دن میں ایک سے زائد مرتبہ یہاں کا رخ کرتا ہے۔ کھانے کے حوالے سے بھی حالات انتہائی مناسب ہیں۔ وقت پہ کھانا میسر ہوتا ہے۔ اور کھانا بھی ایسا کہ گھر جیسا۔ کھانے میں بھی ہفتہ وار مینیو ترتیب دیا گیا ہے۔

سبزیوں اور گوشت کا ایک مناسب تناسب موجود ہے۔کھانا کھانے کے لیے تلف ہو جانے والے برتن موجود ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز مستقل بنیادوں پہ چیک اپ نہ صرف کرتے ہیں بلکہ کسی بھی قسم کی غیر معمولی صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ہمہ وقت چاک و چوبند رہتے ہیں۔مریض کی صحت کی صورتحال کو ہر لمحہ مانیٹر کیا جاتا ہے۔ گھر رابطے کا ذریعہ صرف موبائل فون ہے جس پہ بوقت ضرورت ویڈیو کال یا دیگر سوشل میڈیا فورمز کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

نرسنگ سٹاف ہمہ وقت ہماری دیکھ بھال میں مصروف رہتا ہے۔ معمول کی ادویات ، اگر عام حالات میں لی جا رہی ہیں، تو ان کا بھی خیال نہ صرف رکھا جاتا ہے بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی کوتاہی نہ ہو۔ ایک ہال میں ہم کل چھ لوگ ہیں۔ اور ہمارا باہمی رابطہ ہمیں اس ہال میں مایوس نہیں ہونے دیتا ۔ ہم سب ایک دوسرے کی ہمت بن گئے ہیں۔ اور ہم چھ لوگ وقت گزاری کے لیے آپس میں گفتگو کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع نکال ہی لیتے ہیں۔

میرے پاس ایک الیکٹرک کیٹل موجود ہے جس پہ پانی گرم کرنے کی سہولت موجود ہے جس سے چائے یا قہوہ بنانے میں آسانی ہو گئی ہے۔ ہم سے ہر روز معمول کے سوال جواب کیے جاتے ہیں کہ جس سے ہماری کیفیت جاننے کا نہ صرف موقع ملے بلکہ ہماری مناسب دیکھ بھال بھی ہو سکے۔ پہلے دل میں خوف تھا لیکن موجودہ حالات میں اس طرز عمل سے نہ صرف دل سے خود کا عنصر کم ہو رہا ہے بلکہ اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت بھی پیدا ہو رہی ہے۔


یہ ایک مرکزی شہر کے قرنطینہ میں داخل ایک مریض کے الفاظ ہیں۔ مریض ابھی قرنطینہ میں ہیں۔ اور اللہ کرئے جلدسے جلد مکمل صحت یاب ہو کر اپنے خاندان سے آ ملیں۔ لیکن ان کے الفاظ سے اس بیماری کے خلاف لوگوں کے دلوں سے خوف کم کرنے میں یقینی طور پر مدد ملے گی۔ ہم تواتر سے سنتے رہے ہیں کہ وینٹی لیٹر کا مرکزی کردار ہے اس بیماری کے خلاف جنگ میں۔

کرونا کے سیریس مریض جب وینٹی لیٹر پہ منتقل ہوتے ہیں تو ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہو جاتا ہے۔ ان کی ریکوری کا بنیادی نقطہ ادویات سے زیادہ مضبوط مدافعتی نظام ہے۔ مدافعتی نظام جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی وہ کرونا کے خلاف بہتر طور پر نبر د آزما ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو خوف کی اس قائم فضاء کو نہ صرف ریخت کا شکار کرنا ہو گا بلکہ جو مریض اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں انہیں ہمیں ہمت کا استعارہ اپنی کوششوں سے بھی بنانا ہو گا۔

کرونا کا شکار افراد خصوصی توجہ کے قابل تو ہیں لیکن زیادہ اہم کردار معاشرے کے صحت مند افراد کا ہو چکا ہے کہ وہ اس بیماری کے خلاف آگاہی پھیلاتے ہوئے کیسے لوگوں میں اس بیماری کے خلاف بناء خوف کا عنصر پیدا کیے شعور پھیلاتے ہیں۔
حکومت اپنی جگہ کام کر رہی ہے۔ سوشل ڈیسٹینسنگ کی اصطلاح تو عام ہو چکی ہے لیکن بنیادی طور پر ہمیں سوشلی یا معاشرتی یا سماجی فاصلے کے بجائے ظاہری ی جسمانی فاصلے کا نعرہ لگانا چاہیے تھا۔

سوشلائز ہو کے تو ہم اپنی تنہائی کو کارآمد بنا سکتے ہیں۔ قرنطینہ چاہے حکومتی سرپرستی میں ہو یا گھر پہ دونوں صورتوں میں زیادہ اہم نقطہ تو یہ ہے کہ اس بیماری کے خلاف تنہائی میں رہتے ہوئے بھی معاشرے سے الگ نا رہا جائے۔ تفتان بارڈر پہ جہاں حکومتی قرنطینہ پہ تنقید کرنا ہمارا حق ہے کہ سہولیات کا فقدان ہونے کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوا اور وہ بناء چیک اپ ہوئے نکلنے کی سبیل کرنے لگے تو دوسری جانب مندرجہ بالا قرنطینہ کا حقیقی منظر آپ کے سامنے ہے۔

ابتدائی دنوں میں بہت کچھ درست نہیں ہو پایا۔ لیکن موجودہ حالات میں حکومت کے اقدامات یقینی معنوں میں بہتری کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ درجہ بندی کے لحاظ سے بلاشبہ سندھ واضح سبقت لیے ہوئے ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سندھ حکومت کے اقدامات بھی بطور مجموعی پاکستان میں کرونا وائرس سے نمٹنے میں اہم ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاں باہمی رابطے کا فقدان نظر آیا ابتدائی دنوں میں جو ابھی ختم ہوتا نظر آ رہا ہے کہ وزیر اعظم نے تمام وزرائے اعلیٰ سے مشاورت کی لاک ڈاؤن کی مدت بڑھانے یا اس کو ختم کرنے کے حوالے سے ۔

سندھ حکومت کا ایک نقطہء نظر یا تجویز تھی کہ لاک ڈاؤن بڑھایا جائے، اس پہ بھی وفاق نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے یکسر رد کرنے کے بجائے کسی نہ کسی حد تک مان لیا۔
پہلے پہل جو غلط فہمیاں پھیلیں کہ پولیس پکڑ دھکڑ کرتے ہوئے کرونا کا شکار مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے رہے جس سے ایک ہیجانی کیفیت پھیلنا شروع ہوئی۔ لیکن حکومت کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے اور اب اقدامات اعتمادسازی اور شعور و آگاہی کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔

لوگوں میں کرونا کے خوف سے زیادہ آگاہی پھیلتی جا رہی ہے۔ حکومت کی یقینی طور پر ذمہ داری ہے لیکن کچھ ذمہ داریاں بطور عام پاکستانی ہماری بھی ہیں جن کی جانب بہر حال ہمیں ہی دینا ہو گی۔ حکومتی اقدامات ناکافی ہو سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ وسائل میں جو حکومت کر پا رہی ہے یہ بھی غنیمت ہے۔ ہم کہنے کو تو ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہمیں لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔

جس کی وجہ سے صحت و تعلیم کی سہولیات ابھی اس معیار کی نہیں ہیں جو ہونی چاہیں۔ حکومتی قرنطینہ مراکز کے بعد اہم نقطہ سیلف آئسولیشن یعنی رضاکارانہ بنیادوں پر گھر میں قرنطینہ کرنا ہے۔ اور یاد رکھیے کہ معمولی علامات پہ یا حفظ ماتقدم کے طور پہ ہی قرنطینہ اختیار کرنا کسی بھی طرح قید تنہائی یا سزا نہیں ہے۔ مدت قرنطینہ میں خود کو جانیے، اپنے آپ کو پہچانیے، خود سے جڑے رشتوں کی قدر کو دل میں جگہ دیجیے۔

بہت کم افراد اس مرض سے جاں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس مرض سے صحتیابی کا تناسب زیادہ ہے۔ لیکن ہمیں امید کو بہر حال جگہ دینا ہو گی۔ کرونا وائرس جس حد تک بھی جان لیوا ہے جب تک اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہو پاتی ہمیں قرنطینہ کو اس بیماری کے خلاف ہتھیار بنانا ہو گا۔ قرنطینہ میں دنیا کے نامور افراد اپنا معمول کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی قرنطینہ کو ایک سچائی سمجھتے ہوئے اس میں خوفزدہ ہونے کے بجائے اس مدت کو تعمیری بنانا ہو گا۔

اور لوگوں کو اس کی جانب راغب کرنا ہو گا۔ اور ایسا ماحول ترتیب دینا ہو گا، جیسا اول الذکر مریض کا تجربہ بیان کیا گیا، کہ لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیسٹ بھی کروائیں اور قرنطینہ کی طرف راغب ہوں۔ بجائے اس کے کہ وہ قرنطینہ کو صرف قید تنہائی سمجھتے ہوئے، اس کواپنے لیے ایک سزا سمجھتے ہوئے، اس سے دور بھاگیں اور معاشرے میں کرونا پھیلانے کا سبب بن جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :