میں کورونا سے کیسے لڑا، فیصلہ سازی

ہفتہ 11 جولائی 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

کورونا ایک ڈرامہ ہے یا حقیقت۔ زہر کے ٹیکے لگ رہے ہیں یا جانے والے حقیقتاً اس وباء کی وجہ سے جاں سے جا رہے ہیں۔ لاشوں کے ڈالر وصول کیے جا رہے ہیں، یا ڈاکٹرز انہیں بچانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ کیا حیققت ہے اور کیا مفروضہ یہ صرف وہی جان سکتا ہے جس پہ یہ وقت بیتا ہو۔ اور راقم الحروف اس دور سے نا صرف گزر چکا ہے بلکہ حقیقتاً مفروضے اور حقیقت کے درمیان فرق کرنے میں بہت زیادہ مدد ملی اور یہ ایک ایسا کڑا وقت گزرا ہے کہ جس کی تلخ یادیں اور اس وباء سے نبرد آزما ہونا یقینی طور پر زندگی کا ایک ایسا دور رہے گا جس نے زندگی کو بہت قریب سے جاننے کا موقع دیا۔

قدرت کو اس طرح جاننے کا موقع ملا کہ جو جاننا ہم کھو چکے تھے۔ اس وباء نے چلتی سانسوں سے وہ لمحات یاد کروائے جنہیں عام خوشحال و خوشگوار زندگی میں سوچنا گوارا نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

یہ یقینی طور پر ایک خطرناک وباء ضرور ہے لیکن اس وباء نے ہمیں زندگی کی حقیقت کی طرف لوٹایا ہے۔ اور یہ جاننے کا موقع ملا کہ ایک طرف یہ وباء اگر انسانیت کو خوف میں مبتلا کر گئی ہے تو دوسری جانب ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس وبائی صورتحال میں بھی انسانیت کی خدمت کو فرض عین بنائے ہوئے ہیں۔


فیصلہ سازی، جی ہاں راقم الحروف کو جب یہ معلوم ہوا کہ کورونا کا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہے تو جس صلاحیت نے سب سے زیادہ فائدہ دیا وہ فیصلہ سازی کی قوت ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس خطرناک وباء کا تو نام سنتے ہی خوف آتا ہے چہ جائیکہ اس کا شکار ہونا۔ راقم الحروف نے اس وباء کا شکار ہونے کے چند لمحے خوف میں گزارے۔ اور یقین مانیے جو انسان خوف کا شکار نہیں ہوتا وہ انسان نہیں کہلا سکتا۔

کیوں کہ جیسے بہادری ایک فطری عمل ہے، اسی طرح خوفزدہ ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ لیکن خوفزدہ ہو لیے؟ وباء میں مبتلا ہونے سے پریشانی بھی طاری ہو چکی؟ اب آگے بڑھیے۔ میری طرح بہت سے کورونا کے مریض ہوں گے جنہیں سائیکو یا عمومی طور پر پاگل کہا گیا ہو گیا۔ جب راقم الحروف کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو دوست احباب اور خاندان کے افراد کیوں کہ اس وباء سے شدید خوفزدہ تھے الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے، تو خود کو سب سے الگ کرنے پہ پاگل ہونے کا ٹائٹل ملا۔

آپ کو گھر والے پاگل کہیں گے، دوست احباب کہیں گے یار تمہیں کچھ نہیں ہے۔ تم تو بزدلوں کی طرح سب سے الگ کمرے میں بیٹھ گئے ہو۔ لیکن خدا کے لیے، آپ بزدلی کا یہ طعنہ قبول کر لیجیے اور کسی بھی صورت میں آئیسولیشن یا قرنطینہ پہ سمجھوتا نا کیجیے۔ طعنے سنتے جائیے اور ساتھ اپنے لیے گھر پہ ایک ایسے قرنطینہ کا بندوبست کر لیجیے جہاں آپ کا گھر والوں پہ انحصار کم سے کم ہو۔

آپ کو آنسو دیکھنے کو ملیں گے، جذباتی طعنے سننے کو ملیں گے، واسطے دیے جائیں گے لیکن کم از کم دس دن آپ کان بند کر لیجیے۔ اور ہر طرح کے جذباتی پن سے خود کو محفوظ رکھیے۔ سب سے پہلا کام خوف و سراسیمگی کو الوداع کہنے کے بعد ایسے مخلص دوستوں کا انتخاب کیجیے جن سے اس آئیسولیشن میں رابطہ قائم کر کے رائے لیجیے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ضروری ادویات شروع کیجیے۔

بخار، نزلہ، زکام، ہلکی کھانسی جیسی علامات یقین مانیے ایسی ہرگز نہیں کہ آپ گھر میں قرنطینہ نا ہو سکیں۔ صرف تھوڑی ہمت پکڑیے۔ پہلا دن مشکل ہے گزرایے۔ اس کے بعد آپ خود احتسابی کریں گے تو آپ میں ہمت پیدا ہو رہی ہو گی۔ آپ زندگی کی غلطیوں پہ نادم اور ایک نئے عزم کے ساتھ اس وباء سے لڑ رہے ہوں گے۔ بس یہی کورونا کا نقطہء شکست ثابت ہوتا ہے۔

آپ ایک نیا عزم لے کر اٹھتے ہیں۔
ادویات جتنی کم لے سکتے ہیں لیجیے، ڈاکٹرز سے مشورے کے بعد۔ اور قدرت کی طرف لوٹیے۔ قدرتی اجناس کو معمول بنائیے۔ غذائی ماہر بہتر رائے دے سکتے ہیں۔ لیکن مرچ مصالحے، ٹھنڈے پانی، مرغن غذاؤں سے چھٹکارا ہی آپ کا کورونا کے خلاف مضبوط ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔ موسمی پھل کثرت سے کھائیے۔ بھاپ کی مشین مفید ہے، لیکن راقم الحروف کا تجربہ رہا کہ دیسی طریقے سے،کسی برتن میں گرم پانی اور سر کو مکمل کسی کپڑے سے کور کر کے، بھاپ دن میں تین مرتبہ لینے، اور نیم گرم پانی کا استعمال کورونا کو چاروں شانے چت کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوا۔

دیسی غذاؤں کا استعمال ہم چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت کا احساس اس بیماری کا شکار ہو کے ہوا۔ فیصلہ سازی ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ مضبوط کریں گے تو یہ وباء بہت جلد آپ کی جان چھوڑ دے گی۔ کمپرومائز کرنا آپ کو گرا دے گا۔ کھانا کسی بھی صورت دروازے سے اندر آ کے گھر کے فرد کو نا دینے دیجیے۔ قدرت کی طرف واپس لے آئی راقم الحروف کو یہ وباء تو آپ بھی واپس لوٹیے اور قرنطینہ یا آئیسولیشن میں کمرے کو خود روز صاف کیجیے۔

سب سے مشکل مرحلہ خود کپڑے دھونا ہے۔ یقین مانیے یہ فیصلہ آپ کا اس شخصیت کو بہت محفوظ کر دیتا ہے جسے آپ عام حالات میں کپڑے دھونے کی ذمہ داری سرانجام دیتا دیکھتے ہیں۔ سب سے زیادہ سود مند گھر کے باقی افراد کے لیے آپ کا کپڑے تک کمرے کے اندر خود دھونا ہے اگر منسلک واش روم موجود ہے تو۔ آپ کے سادہ سے فیصلے آپ کو اس بیماری خلاف فرنٹ فٹ پہ لے آتے ہیں۔

ابتدائی ایک ہفتہ اگر آپ محاذِ زندگی پہ ثابت قدم رہتے ہوئے بہتر فیصلے کرتے جائیں تو آپ اپنے آپ میں بہتری خود محسوس کریں گے۔ رفتہ رفتہ جب وباء کے خوف سے زیادہ رب کے آگے جھکنے کا مزہ آنے لگتا ہے تو پھر آپ ایک نئی توانائی پانا شروع ہو جاتے ہیں۔ تمام طاقتوں سے اوپر ایک طاقت ہے جو سب پہ حاوی ہے جس کے حکم کے بنا ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا، یہ احساس ہی انتہائی محسور کن ہے۔


کورونا وباء کا شکار ہو جانا اہم نہیں ہے بلکہ اہم اس وباء کے خلاف اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہے۔ پریشانی ایک مخالف سمت لے جاتی ہے۔ آپ جتنا اس بیماری کو اپنے اوپر حاوی کر کے ذہن پہ بوجھ ڈالیں گے یہ وباء آپ پہ مزید حاوی ہوتی جائے گی۔ فیصلہ سازی کی قوت پیدا کیجیے۔ بخدا اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد فیصلہ سازی کی قوت واحد ایسی دوا ہے جو اس کے خلاف آپ کو حوصلہ اور عزم دیتی ہے۔ آپ نے پہلے دن فیصلہ کر لیا کہ قدرت نے جو لکھ دیا ہو گا لیکن آپ ہمت نہیں ماریں گے تو کورونا ہمت ہار دے گا۔ اور اگر آپ نے اپنے تیئں دل میں سوچ لیا کہ آپ اس بیماری کا شکار ہو گئے اور اب آپ کے پاس کچھ نہیں بچا تو پھر یہ وباء کے پرجوش ہونے کا لمحہ ہو گا۔ اور ایسا لمحہ کبھی نا آنے دیجیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :