ہم اور اقلیتیں

منگل 7 جولائی 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

اللہ تعالی کا دنیا کو معرض وجود میں لانے کا مقصد محض اپنی پہچان کروانا یا انسان کا سر جھکوا کر عبادت کروانا ہر گز نہ تھا۔ بلکہ اس دنیا کو بروۓ کار لانا صرف اور صرف ایک عظیم انسان کی پیدائش کی مرہون منت ہے ۔ دنیا کی تخلیق کے بعد اس میں بسنے والی مخلوقات کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے مختلف ادوار میں پیغمبر بھیجے جو کہ معلم کا کردار ادا کرتے رہے ۔

ان تمام ہستیوں کا مقصد انسان کی رہنمائی کرکے زندگی کے معاملات کو احسن طریقے سے فرائض سرانجام دینا تھا ۔
جنگل اور پتھر کےزمانے کی زندگی سے نکل کر انسان نے محلات میں رہنا شروع کر دیا ۔ترقیوں کی منازل طے کرکے سمندر کی لہروں کا مقابلہ کرنے اور پہاڑوں کی چٹانوں کو توڑنے تک کی مسافت کو طے کرنے میں کئی صدیاں صرف کر کے یہ سنگ میل عبور کیا ۔

(جاری ہے)

پتوں سے بدن ڈھانپنے کے دور  سے نکل کر جدید فیشن کی دنیا میں قدم رکھ چکا ہے ۔ آج کا زمانہ جدید تہذیب و تمدن کا روشن چہرہ مانا جاتا ہے جہاں پر لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرکے انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔
بلا شک,  مذاہب کا انسان کی ترقی میں اہم کردار رہا ہے وہ چاہے عیسائیت ہو یا اسلام تمام کے تمام انسان کے جانی و مالی اثاثہ کے تحفظ کا حکم صادر فرماتے ہیں ۔

اگر اسلام کے اصولوں کو پرکھا جاۓ تو انسان کے سب سے زیادہ حقوق اور ان کی بالادستی کا سہرا بلا شبہ اسی کو جاتا ہے ۔ تاریخ کے اوراق کو پرتنا شروع کیا جاۓ تو ایک ایسا دور بھی ملے گا جہاں انسان کو انسان تک نہ سمجھا جاتا تھا, بیٹیوں کو زندہ دفن اور انا پہ کئی لاشوں کا میلہ سجایا جاتا تھا ۔ اسی تاریک دور میں ایک ایسی شخصیتﷺ ابھری جنہوں نے تاریکی کے سایہ کو سورج کی روشنی سے ختم کردیا اور انسان کو انسان کی پہچان کروائی۔

مسلمانوں کے آخری پیغمبر ﷺ آخری الہامی کتاب جو کہ ہدایت کا سرچشمہ تھے لے کر ایسی قوم پر نازل ہوئی اور بدو کہلوانے والوں کو عظیم تہذیب کا تاج پہنا دیا ۔
تلوار کم اور احس اخلاق کا استعمال لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا اور جوق در جوق لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے گۓ اور یوں ایک اسلامی ریاست جس کا مرکز مدینہ تھا کا قیام زیر عمل لایا ۔

اس ریاست کی بنیاد انسانوں کے درمیاں بلاامتیاز رنگ,نسل,ذات اور مالی حالات عدل وانصاف قائم کرنا تھا ۔ عورتوں اور غلاموں کو تاریخ میں پہلی دفعہ برابر کا انسان سمجھا گیا ۔  اقلیتوں کو برابر کا حق اور ان کو مذہبی آزادی کا اختیار دیا گیا اور جبری مذہب کو بدلنا سخت ممنوع اور اسلام کے حصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔محض تلوار نہیں بلکہ چند اصول اور ان ہر عمل نے مسلمانوں کے چمکتے چہرے کو دنیا میں ایک مثال بنا دیا تھا ۔

یوں مسلمانوں کا ایک روشن باب شروع ہوا جس کے آثار سلطنت عثمانیہ تک نظر آۓ ۔اس دوران اقلیتوں کے تمام انسانی اور مذہبی امور کا تحفظ یقینی بنایا گیا ۔ ابو عبید اپنی کتاب مالی اثاثہ میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ یہودی کو بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا اور وہ بعد میں جاری رہا ۔ اسلام کبھی بھی جبری طور پہ کسی بھی غیر مسلم کو اسلام کی طرف راغب نہیں کر سکتا۔


تمام مذاہب کو اپنی دینی فرائض کو ادا کرنے کے لیے مکمل طور پر آزادی دیتا ہے بشرطیکہ اگر وہ اسلام کے پھیلاؤ کے آڑے نہ آۓ۔
٢٠ صدی کے وسط میں ایک ایسی ریاست کا قیام وجود عمل آیا جس کی بنیادی اسلامی نظریات پہ رکھی جا رہی تھی ۔ جی,اس ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تھاجوکہ برصغیر کی تقسیم کے نتیجہ میں دنیا کے نقشہ پہ ابھرا جس کی آبادی کا تناسب دیکھا جاۓ تو تقریبا ً ٩٧  فیصد مسلمان اور ٥ فیصد غیر مسلم ہیں۔

اقلیتوں میں زیادہ تر ہندو ,سکھ اور عیسائیت کا زور پایا جاتا ہے ۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوۓ اپنے قومی معاملات کو دیکھ رہا ہے ۔
پاکستان کے آئین کے مطابق, اس میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو سیاسی, مذہبی اور ثقافتی امور سرانجام دینے کے لیے مکمل طور پر آزادی حاصل ہے ۔ اقلیت کسی بھی مقام پر جگہ خریدنے اور بیچنےکے لیے اہل ہیں ۔


١٩٤٧ ء میں ملک پاکستان کے محسن اور گورنر جنرل قائداعظم نے اقلیتوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوۓ فرمایا تھا کہ آپ مندر میں جانے کے لیے آزاد ہیں, آپ مسجدوں اور کلیساؤں میں جانے کے لیے آزاد ہیں یہ وطن آپ سب کا ہے مگر افسوس کے ساتھ, اس اسلامی ملک کی اسلامی عوام ظالمیت کی حدیں عبور کر چکی ہیں ۔ عالم اقوام میں پہلے ہی,  پاکستان کو اقلیت کے حقوق کے لحاظ سے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا وہاں پر موجودہ ہونے والے واقعات ہمارے معاشرہ کی گری ہوئ اور تنگ سوچ کی عکاسی کر رہے وہیں پہ ریاست کا عالمی تشخص بھی گرا رہے ہیں ۔


پشاور میں پیش آنے والا ایک دلخراش واقعہ جس میں ایک مسیح کو مسلمانوں کے محلہ میں مکان لینا مہنگا پڑ گیا ۔
ہمارے ایمان کے کمزور ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسیح کو محلہ میں مکان لینے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور ایک مظلوم انسان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ زندگی کی بازی ہار گیا ۔ اسی طرح کا ایک اور دل سوز واقعہ رحیم یار خان کے ایک چک میں پیش آیا جہاں پر ایک مسیح جوڑے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور زبردستی چک سے نکلنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے ۔


آۓ روز سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر رشتہ ازدواج میں باندھا جا رہا ہے ۔ یوں بڑھتے ہوۓ تشدد کے واقعات ہماری انتہا پسندانہ سوچ کی منظر کشی پیش کرہی ہے ۔ ایسے واقعات اقلیتوں سے نہ صرف مذہبی بلکے بنیادی انسانی حقوق کو بھی چھین رہے ہیں ۔ ہم برما, یمن, شام اور فلسطین کے مسلمانوں کے خون کا تحفظ تو مانگتے ہیں مگر اپنے کردار کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔

اگر یہی حال ہمارے ملک میں رہا تو ہندوستان اور پاکستان میں کیا فرق رہ جاۓ گا جس نے اقلیتوں کا جینا محال کر رکھا ہے اور عالمی فورم پر بولنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی موضوع ہے ۔
حال ہی میں ذرائع ابلاغ پہ گردش کرتی ہوئ خبر پر نظر پڑی جس میں یہ بیان کیا جارہا تھا کہ ہندو برادری کے لیے اسلام آباد میں کرشنا کے نام سے مندر تعمیر کیا جا رہا ہے جس کے خلاف بڑا سخت اور جزبات سے بھرا ہوا ردعمل سامنے آرہا ہے ۔

اس کے ساتھ یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ اسلام آباد کے ہی علاقہ میں کسی سرکاری جگہ ہر ٢٥ سالہ تعمیر شدہ مسجد کو مسمار  (شہید) کر دیا گیا جس سے ان ابھرتے ہوۓ جزبات میں اور اضافہ ہو گیا ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اقلیتوں کا آئین کے مطابق پورا حق ہے کہ وہ مذہبی فرائض سر انجام دے سکتے ہیں ۔انہیں اس بات کی کھلی آزادی ہے کہ مذہبی اور ثقافتی اقدار کو عمل میں لا سکتے ہیں۔

اس لیے مندر کی تعمیر میں روڑے اٹکانا ہماری انتہا پسندانہ سوچ اور ہمارے کمزور ایمان کی نمائندگی کر رہی ہے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد کی اگر آبادی کے تناسب کو دیکھا جاۓ تو بہت ہی معمولی تعداد میں ہندوء اقلیت زیر آباد ہے جس کے لیے مندر کی تعمیر اتنی اہمیت کی حامل نہیں تھی ۔ ہاں, البتہ عیسائی اقلیت کافی تعداد میں موجود ہیں اور ان کے لیے کلیسا کی تعمیر اہمیت کے حامل ہو گی ۔

اگر یہ مندر اس علاقے میں تعمیر کیا جاتا جہاں ہندو اکثریت کے حامل ہیں,  مفید ثابت ہو سکتا تھا اور بلا وجہ غیر ضروری تنقید سے بچا جا سکتا تھا ۔
دوسری بات یہ کہ اسلام آباد انتظامیہ کو قائم شدہ مسجد کو شہید نہیں کرنا چاہیے تھا باوجود اس کے کہ وہ جگہ ناجائز طور پر ہتھیائی گئ تھی ۔
قصہ المختصر,  اقلیت ہمارے ملک کی شان کا ایک اہم حصہ ہیں اور مختلف شعبوں میں وطن کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس رانا بھگوان داس,آئی آئی چندریگر  اور ان جیسی کئ اقلیتی شخصیات ملک کے اہم عہدوں پر اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھاتے رہے ہیں ۔
بحثیت قوم,انسان اور مسلمان, ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اپنے کردار کو مثبت پہلو کیں ڈھالیں اور ایسے ملک کے شہری ہونے کا ثبوت دیں جس کی اقدار کو دنیا مانے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :