مہذب قومیں اور ہم ؟

پیر 15 جون 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

عظیم لیڈر کی خصوصیات کو اس وقت پرکھا جاتا ہے جب اس کی قوم کو کسی ناگہانی آفت یا مصیبت کا اچانک سامنا کرنا پڑے کیونکہ یہی وقت لیڈر کی سیاسی بصیرت, انقلابی سوچ اور خدمت کے جزبے کو اجاگر کرتا ہے۔ اگر لیڈر اس امتحان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیتا ہے تو سیاسی و معاشرتی میدان میں اپنا قد مزید بڑھا لیتا ہے ۔اس کے برعکس,  اسی نازک صورت حال میں اگر وہ فیصلےسازی اور اس کے اطلاق میں ناکام ہو جاتا ہے تو چاہے وہ کتنا بڑا لیڈر کیوں نہ ہو اپنا سیاسی و معاشرتی تشخص کھو دیتا ہے اور اس کا مستقبل تاریک راہوں پر گامزن ہو جاتا ہے ۔


کوڈ ۔19 دنیا کے عظیم رہنماؤں اور بڑے بڑے لیڈر ہونے کے دعویداروں کی لیے ایک  ًلٹمس ٹیسٹ ً ثابت ہوا جس نے حلقہ سیاست میں پاۓ جانے والی شخصیات کے صلاحیتوں کے بھید افشاں کردیۓ۔

(جاری ہے)

بڑے بڑے عالمی رہنما جن میں ٹرمپ سر فہرست ہیں, کرونا پہ قابو پانے کے لیے بے بس نظر آرہے ہیں اور اب سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے لوگوں کی توجہ کا مرکز تبدیل کر رہے ہیں ۔

لیکن,  اسی وباء نے چند رہنماؤں کی صلاحیتوں کا خوب چرچا کروادیا جن میں چین کے صدر شی جن پنگ, انگلستان کے وزیراعظم بورے جانسن اور نیوزی لینڈ کی فولادی عورت جینسڈ آرڈن نمایاں ہیں ۔ ان رہنماوں نے بروقت کئ ٹھوس اور موقع کی مناسبت سے صحیح اقدامت اٹھا کر اپنے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کیا ۔
جیسںنڈ آرڈن صرف انتالیس سال کی خاتون وزیراعظم ہیں, جنہوں نے اپنے جزیرہ نما ملک میں کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے موثر حکمت عملی کو اپنایا ۔

اگر نیوزی لینڈ کے جغرافیائ خدوخال کو دیکھا جاۓ تو یہ ایک جزیرہ پر مشتمل ریاست ہے جس کی آبادی بہت ہی کم اور لگ بھگ ٤٠٩ ملین  یعنی صرف ٤٩ لاکھ ہے ۔ آبادی کی کم شرح نے موثر اقدامات کے ذریعے کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ۔لیکن اس کے ساتھ اور کئ عوامل زیر بحث ہیں جو کیوی افراد کا مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔
اگر دوسرے عوامل کا جائزہ لیا جاۓ تو, ان میں سب سے پہلے مکمل لاک ڈاؤن کا نقطہ حکمت عملی کا سب سے بڑا مہرہ نظر آتا ہے ۔

جیسنڈنےرواں سال   ٣ فروری  ٢٠٢٠ تک کسی قسم کی کوئ پابندی نہیں لگائ تھی مگر جونہی سب سے پہلا کیس زیر نظر آیا, عظیم خاتون نے بروقت مکمل لاک ڈاؤن کا آپشن کو استعمال کیا ۔ اس کا نام لیول ٤  گردانا گیا ۔ جس کے تحت تمام اندرونی و بیرونی فضائ آپریشن معطل, مقامی سفری ذرائع کا پہیہ جام,  تمام کاروبار سواۓ چند باقی کاروبار جن میں روز مرہ کی اشیاء کی دوکانیں ,دوا خانے,  ہسپتال اور فیول فراہم کرنے والے اڈے شامل ہیں, کو مکمل طور پر بند  , اور مقامی نقل و حرکت پہ پابندی لگا دی ۔

اس کے باعث,  کرونا کی شرح پھیلاؤ میں کافی کمی آ گئ تھی ۔
حکومتی فیصلے کے بعد, سب سے بڑی ذمہ داری ان کی عوام کے کندھوں پر آ پڑی اور یہاں پر کیویز نے بڑی مہذب اور سلجھی ہوئ قوم کا مظاہرہ کیا ۔ تمام گلیاں مکمل طور پر سنسان, قومی شاہراہیں ویران,  بازار  اور کھیل کے میدان خالی پاۓ گۓ ۔ لاک ڈاؤن کی پابندی کروانے کے لیے نہ مقامی پولیس کو اور نہ ہی  مسلح افواج کو مدعو کیاگیا تھا ۔

لوگوں نے پرامن اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ تمام اصول و قواعد جن میں سماجی فاصلہ انتہائ اہمیت کا حامل تھا کو من و عن اپنایا ۔
اس کے ساتھ ساتھ,  وزیر اعظم نے موقع کی مناسبت سے لمحہ بہ لمحہ اپنی قوم کو اعتماد میں لیتی رہیں ۔ وہ ہمیشہ شعبہ طب سے تعلق رکھنے والوں افراد کی تجاویز پہ عمل کرواتی رہیں۔ان کی رہنمائ کا واضح اثر ان کے جاری بنانات میں نظر آتا تھا ۔

بہت ہی مثبت, منفرد اور قابل عمل بیانات قوم کے جزبہ میں اضافہ کرتے نظر آۓ ۔انہوں نے سافٹ پاور کے استعمال کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا ۔
شرح پھیلاؤ کو کم دیکھ کر,  جیسنڈرا لیول ٣ کے لاک ڈاؤن کی طرف گامزن ہو گئ جس میں چند پابندیاں اٹھا لی گئ اور زندگی کے پہیہ کو دھکیلنے کی کوشش کی اور بالآخر, مہینوں کی انتھک محنت پھل لانا شروع کر دیے۔

کچھ ہفتہ قبل, جیسنڈرا نے دعوئ کیا تھا کہ کیویز کے دیس میں کرونا کا پھیلنا اب ناممکن ہو چکا تھا لیکن ابھی صبر کی ضرورت ہے ۔ رواں ہفتہ کے پہلے ہی دن,  عظیم خاتون نے اپنی قوم کو پرمسرت اعلان کے ساتھ خوشخبری ان کے سماعتوں کے نذر کی۔ معمولات زندگی اب رواں ہونا شروع ہو جائیں گے ۔
اگر معیشت کی بات کی جاۓ تو نیوزی لینڈ کا دارومدار برآمدات پر ہے اور سیاحت کے شعبہ کو معیشت کے پہیہ دھکیلنے کے لیے بنیادی قوت سمجھا جاتا ہے ۔

اس سارے مرحلہ میں حکومت نے مناسب معاشی اقدامات اٹھاۓ اور لوگوں کو بنیادی اشیاء زندگی فراہم کرتے رہے ۔ قصہ المختصر,  ایک ایسا ملک جو کہ سارا سال سورج کے نظارہ کا لطف لیتا ہے اب پہلی ریاست بن چکی ہے جو کہ ایک اجیرن لمحات گزارنے کے بعد  اچھی زندگی کی خوشیاں دیکھے گی ۔
اگر ان تمام حالات و واقعات کے پس منظر کو سمجھا جاۓ اور ریاست پاکستان کے باسیوں پر نافذ کرنے کی کوشش کی  جاۓ تو نتائج  بہت ہی مختلف ہوں گے ۔


پاکستان ایک گنجان آبادی کی ریاست جس کے افراد کی تعداد ٢٠ بلین کے نزدیک ہے اور رقبے کے لحاظ بڑی ریاستوں میں شمار ہوتا ہے ۔اگر جغرافیاں اور آبادی کے علاوہ دیکھا جاۓ تو پاکستان کی معیشت پہلے ہی اتنی کمزور ہے کہ اب اگر ہوا کا ایک سخت اور تیز جھونکا بھی چلا تو منہ کے بل گر پڑے گی ۔ عالمی معاشی اداروں کے زیر اثر قرضوں کی ایک لمبی فہرست جو کہ ناقابل بیان ہے, ملکی معیشت اس حالت میں نہیں ہے کہ مکمل طور پر لاک ڈاؤن کیا جاۓ اور اگر ہم افرادی  قوتِ زر کا مشاہدہ کریں تو کل آبادی کا تقریباً نصف طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

زیادہ تر افراد کے گھریلو چولہے کے چلنے کا دارومدار دہاڑی پہ ہوتا ہے ۔ ایسے حالات میں حکومت وقت کے لیے مکمل لاک ڈان کرنا کسی اور مصیبت میں مبتلا ہونے سے کم نہ تھا ۔
اگر بات قومی رہنماؤں کی زیر لب لائ جاۓتو سواۓ غلط حکمت عملی اور تقریروں کے کچھ نہ ملے گا۔ مشیر و وزیر محض ذرائع ابلاغ پہ بھڑکیں مارنے کے سوا کچھ خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھا سکیں۔

پیارے اور خوبصورت وزیر اعظم کی تو بات ہی کیا ہے کہ سواۓ چند الجھا دینے والے خطاب جو انسان کے دماغ میں یہی فطور بٹھا دیتے تھے کہ کرونا محض ایک کھیل رچایا جارہا ہے اور اگر حقیقت مان بھی لی جاۓ تو یہ محض ایک سادہ نزلہ زکام کے کچھ بھی نہیں ۔مزید براہ, موصوف ہر خطاب میں یہ نوش فرماتے ہوۓ سنے جاتے تھے کہ کرونا کی وباء نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے ۔

اگر اب ان سے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے مثالی اقدامات کا ذکر کر دیا جاۓ تو ان سے جواب کی توقع نہ رکھی جاۓ۔حکومت وقت کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے طب کے مسائل سے نپٹنے والے افراد کی ایک نہ مانی اور محض علماء اور چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بنتی نظر آئ ہے ۔  ان حالات نے عمران کی صلاحیتوں کا بھانڈا سرِ بازار پھوڑ دیا ہے ۔
یہ تو بات حکومتی نمائندوں کی تھی اور اگر عوام کی کفتگو کی جاۓ تو کبھی یہ کرونا کو سازشی نظریات تو کبھی اللہ کا عذاب,  کبھی امریکہ کی اسلام کے خلاف سازش تو کبھی بل گیٹس کا دنیا قابو کرنے کا اور تو اور یہاں کے جعلی پیروں کے پاس کرونا تک کاعلاج میسر ہے, جوکہ محض ١٠٠ روپے نذرانہ کے کیا جاتا ہے اور تو وہ لوگ جو قواعد پہ عمل کرتے نظر آۓ انہیں کمزور یقین کے طعنے دیے جاتے ہیں ۔

سر عام قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائ جاتی رہیں۔ غریب افراد کی روزی کو مد نظر رکھتے ہوۓ لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا گیا تو یہ مہذب ہونے کے دعقیدار بازاروں میں اس طرح گۓ جیسے بازار کے سارے کپڑے عید کے بعد اس دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے ۔ اجتماعات پر پابندی لگائ گئ تو چھپ کر گھروں میں کہیں شادیاں تو کہیں بیٹے کی  پیدائش پر خوشیاں منانے کے لیے دعوتیں کی جاتی رہیں اور اسی طرح کرونا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ تک جا پہنچی اور ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گۓ۔


اور ہمارے کتابِ رخ کے فلاسفر ہیں کہ اپنے فلسفے جھاڑنے میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔روز کرونا کو لیے کوئ نہ کوئ بے تقی تحقیق پر ایک دوسرے کی ہاں پہ ہاں ملا رہیں گے ۔
بحثیت ایک زندہ قوم ہمیں اور ہمارے لیڈران کو مہذب اقوام سی کچھ نہ کچھ سیکھ لینا چاہیے ۔  اگر ہمارے حکمران جیسنڈ کی مثبت حکمت عملیاں ,جو کہ ہماری ریاست کے حالات کو زیب دیں, کو اپنا لیں اور ہماری عوام کیویز کی طرح قواعد و ضوابط کی پیروی کر لیں تو مکمل لاک ڈاؤن کی نوبت نہیں آۓ گی ۔

اور خدارا حاکم وقت کو کوئ سمجھا دے کہ گھبرانا نہیں ہے اور کرونا ہر حال میں پھیلنا کی رٹ چھوڑ دیں اور اگر مثبت نہیں تو منفی بات کرنا تق چھوڑ دیں ۔
ہمیں ایک بات اپنے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب تک کرونا کی ویکسین تیار نہیں ہوتی اس کا واحد حل سماجی فاصلے کو اپنانے سے ہی اس سے بچا جا سکتا ہے وگرنہ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر تو کیا بستر بھی کم پڑ جائیں گے۔ یہ وقت ہے کہ مہذب قوم بن کر اس وباء کا سامنا کیا جاۓ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :