انسانی حقوق کی تنظیمیں ۔ کارکردگی؟

جمعرات 2 جولائی 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

اس کائنات میں کوئ ایسا مذہب موجود نہیں جو انسانی زندگی کی اہمیت کو اجاگر نہ کرتا ہو اور بلاعذر انسانی جان لینے کے حق میں ہو۔ ہر مذہب انسانیت کی فلاح و بہبود کے فلسفے کے اردگرد گھوم رہا ہے ۔
١٦ صدی کی وسط میں,  ریاستی نظام کا وجود عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی مدعا ریاست کے انتظامی امور سے مذہب کو جدا کرنا تھااور انسانی فلاح و بہبود کو ان اہم مقصد بنانا تھا ۔

یہ ریاستی نظام ترقی و پستی کے منازل سے کچھ یوں گزرا کہ ٢ عالمی عظیم جنگوں کا سبب ریاست کے ارد گرد گھومتی قومیت پرستی کو گردانا گیا اور نظام کی معاونت کے لیے غیر ریاستی اداروں کا قیام عمل میں لانے کا سوچا گیا ۔ پہلی عظیم جنگ کے بعد ہی ان کوششوں کا آغاز ہو گیا تھا جن کا واحد ثبوت عالمی رہنماؤں کا سر جوڑ کر قوموں کی تنظیم the league of nation کا معرض وجود میں لانا تھا مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ اپنا مقام و مقصد کھو بیٹھی ۔

(جاری ہے)

عظیم جنگ دوم کے بعد,  غیر ریاستی تنظیم سازی کا سوچا گیا اور ایک نظام bretton wood system کے تحت اقوام متحدہ اور ان کے زیر اثر تنظیموں کا ایک جال بچھایا گیا ۔ ان کا مقصد عالم پہ موجود انسانوں کی مختلف معاملات میں معاونت کرنا تھا اور ریاستوں کو آپس کے معاملات کے حل کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا ۔
اقوام متحدہ کے زیر اثر انسانی حقوق کی تنظیم اور کمیشن عالم انسانیت کو مظالم سے بچانے میں مصروف عمل ہیں ۔


ان کا مقصد لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ریاست کے اقدامات کو سراہنا اور اقدامات کو زیر عمل لانے کے لیے حکمت عملیوں کو مرتب کروانا ہوتا ہے ۔
عالمگیریت کے دور میں جہاں ریاست ایک دوسرے کے اوپر معاشی اور سماجی اعتبار کے لحاظ سے انحصار کرتی ہیں وہی ان کے درمیان معاملات اور شکل اختیار کر گۓ ہیں اور بالخصوص ریاستوں کے درمیان زمینی جھگڑوں کو نمٹانا اہمیت کا حامل ہو چکا ہے ۔

مگر,  ایسی ریاستیں جن کے درمیان زمینی فسادات ہو رہے ہیں وہاں انسانی حقوق کو بہت خطرناک طریقے سے سلب کیا جا رہا ہے ۔ لسانی, مذہبی اور مفاد کی بنیاد پہ ہونے والی لڑائیاں انسانی بحران کی شکل اختیار کرچکے ہیں مگر ان انسانی حقوق کی تنظیمیں  لمبی تان کر سو رہی ہیں۔
ایک حلقہ سے ان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ صرف اور صرف عالمی طاقتوں کے مفاد کو عمل جامہ پہنچانے کے لیے وجود میں لائ گئیں تھی اور ابھی بھی آلہ کار کا کام سرانجام دے رہی ہیں ۔

یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بالخصوص اس وقت متحرک نظر آتی ہیں جب غیر مسلم کے اوپر مظالم ڈھاۓ جارہے ہو یا انسانی حقوق کے سلب ہونے کو بنیاد بنا کر کمزور ریاستوں کے وسائل کو زیر استعمال لانے کے لیے ان کے مقامی سیاسی معاملات کو دباؤ میں لا کر فوجی دستوں کو داخل کیا گیا ۔ اس کی واضح مثال امریکہ کا عراق میں فوجی دستوں کا داخلہ جس کا مقصد جمہوریت کو لانا اور انسانوں کو حقوق دلوانا بتایا گیاتھا مگراس کے پیچھے چپھے تیل کے ذخائر کو زیر اثر لانا کو سامنے نہ لایا گیا ۔


مسلمانوں پہ ڈھاۓ گۓ مظالم خواہ وہ یمن میں ہو یا لیبیا,  روہنگیا ہو یا کشمیر, فلسطین ہو یا ہندوستان پر یہ براۓ نام انسانی حقوق کہ تنظیمیں خاموش تماشائ بنی ہوئ ہیں اور اس بات کا ثبوت دے رہی ہیں کہ واقعی ان کے قیام کا مقصد عالمی طاقتوں کے مفادات کا حصول تھا ۔
اگر ہم کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پہ ڈھاۓ جانے والے مظالم کا بغور مشاہدہ کیا جاۓ تو مسلسل انسان کے بنیادی  حقوق کو سلب کیا جارہا ہے ۔

ان دونوں قطعہ پہ لوگوں سے خود ارادیت کا حق چھینا جا رہا ہے ۔ کشمیر کی اگر مثال سامنے رکھی جاۓ تو تقریبا ٤ ماہ سے کرفیو لگا کر  فوجی مظالم ڈھاۓ جارہے ہیں ۔ انسانوں کی نقل و حرکت کو روکا ,  خوراک اور ادویات تک رسائ نہ دینا,  جوانوں کی نسل کشی اور عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا جارہا ہے ۔ اقوام متحدہ کے زیر اثر قراردادوں کق مسلسل ہندوستان نظر انداز کررہا ہے اور اب تو اسرائیل کے طعز عمل پر آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے۔


آج کشمیر میں کرفیو کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے ۔نوجوانوں کی نسل کشی ایک سنگین مسئلہ اختیار کر چکی ہے مگر عالمک طاقتیں اور انسانی حقوق کی  تنظیمیں ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔
 آج ایک دلخراش واقعہ جس میں ایک بزرگ کو اس کے تین سالہ بیٹے کے سامنے موت کی وادی میں بھیج دیا ان تمام براۓ نام انسانی حقوق کی تنظیموں کا منہ چڑھا رہا ہے ۔


خود ارادیت اور انسان کے بنیادی حقوق  تمام انسانوں کو بلاتفریق فراہم کیے جانے چاہیے اور ان عالمی تنظیموں کو ام مظالم کا نوٹس لینا چاہیے وگرنہ ان کی فعالیت پہ سوال اٹھتے رہیں گے ۔
اپنی مردہ تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ان تنظیموں کو چاہیے کہ انسانی حقوق کو سلب کرنے والی ریاستوں کے اوپر دباؤ ڈالیں اور انہیں معاشی پابندیوں میں جکڑ کر انسانوں کو خود ارادیت کے حق کے حصول کے لیے مجبور کریں اور اپنا زندہ ہونے کا ثبوت پیش کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :