ناقص حکمرانی کا مظاہرہ

ہفتہ 27 جون 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا جو منصوبے بناۓ جارہے ہیں وہ عوام کی فلاح بہبود کے مقاصد کو پورے کررہے ہیں اور اس کے فوائد کے اثرات عام آدمی پر پڑ رہے ہیں یا اس کے بالکل برعکس,  منصوبوں اور اقدامات کا فائدہ صرف اور صرف ایک مخصوص گروہ تک محدود کیا جا رہا ہے جو کہ حکومت وقت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہوتا ہے ۔

حکومت کی حکمت عملیاں عوامی فلاح کے لیے یا پھر کہیں اور سے کسی اور کے فائدہ کے لیے بنائ جارہی ہے۔
حکومت وقت کو ایوان کی زینت بنے تقریباً دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ اپنے انتخابی منشور کے مطابق حکومت نے پہلے سو دن میں اپنے مستقل مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا تھے مگر سو دن کا عرصہ بھی گزرگیا۔

(جاری ہے)

اس سو دن کے دورانیے میں ,عوام کو سواۓ وزیراعظم کی پر اطمینان اور تسلی بخش تقاریر کے علاوہ کچھ موصول نہ ہوا ۔

حکومت وقت کے کپتان نے اپنی ٹیم کو مکمل کرکے  فیلڈنگ ترتیب دینے کے لیے بڑے داؤپیچ لگانے پڑے مگر کابینہ میں بدلتے رنگ والے چہروں کے علاوہ بہت کم ایسی شخصیات پائ گئ جن کا تعلق موجودہ حکومت کی سیاسی جماعت سے تھا ۔
وہ وعدہ ہی کیا جو جفا ہو جاۓ کے معقولہ پہ پورا اترتےہوۓ وزیراعظم نے کابینہ کو تعداد کو اعلی سطح پہ پہنچا دیا اور تو اور معاون خصوصی کے انبار لگادیے ۔

اب تو بس خان صاحب کے ذاتی ذندگی کے معاون خصوصی کی سیٹ رہ گئ تھی جو کہ امید ِ مستقبل ہے کہ پوری ہو جاۓ گی ۔
گزرتے وقت کے ساتھ حکومت وقت کو پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن احتساب کے نعروں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بڑی تگ و دو کی جا رہی تھی ۔ کبھی نواز شریف جیل میں تو کبھی زردادی سلاخوں کے پیچھے,  کبھی حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف تو کبھی سابقہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نیب کے سرکاری مہمان بنے ہوۓ ہوتے تھے مگر یہ صرف اور صرف سیاسی دوکان کو چمکانے اور عوام کق جھوٹی تسلی دینے کے علاوہ کچھ ثابت نہ کر سکا ۔

اس بات کی یہ گواہی ہے کہ یہ تمام حکومت مخالف اسمبلی کے ارکان بغیر کسی لوٹی ہوئ دولت کی واپسی اب رہائ پا چکے ہیں اور حکومت وقت کے بلند و بانگ نعروں کا منہ چڑھارہے ہیں ۔
معاشی حکمت عملی کی بات کی جاۓ تو حکومت وقت نے کچھ اصلاحات لانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہی گھسے ہوۓ کھوٹے سکے کہاں چمکنے والے تھے ۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مشروط معاہدے کرکے برآمدات کو بڑھانے کی کوشش کی گئ مگر اپنی ہی اجناس کو سستے داموں خرید کر ملک میں بحران کی سی کیفیت پیدا کر دی گئ ۔


پاکستان کی تجارت اور معیشت کا دارومدار اجناس پہ ہوتا ہے مگر معاشی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے برآمدات اس ان انداز میں کی گئ کہ مقامی ضروریات کو نظر انداز کردیا گیا ۔ صوبوں کے درمیان مواصلات کی غیر موجودگی نے جلتی پہ آگ کا کام کیا اور خوراک کے بحران کو سنگین حالات کی راہ دکھا دی۔ گندم اور آٹے بحران کے پیچھے مافیا کا بھی اہم ہاتھ رہا ہے مگر حکومت انتظامی اس مسئلہ سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہوئ ۔

قدم اٹھاتے بھی اٹھاتے ہی کیوں ؟  کیونکہ اس مصنوعی بحران میں حکومت وقت کے ہی وزیروں کا ہاتھ تھا جو کہ خوراک بحران کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد حکومت وقت نے انقلابی قدم یہ لیا کہ ان وزیروں کی فیلڈنگ پوزیشن تبدیل کر دی تاکہ وہ وہاں پر بھی کیچ چھوڑ کر ٹیم کی ہار میں اہم کردار ادا کرسکیں ۔
سیاسیات کے شعبہ میں پڑھایا جاتاہے کہ معاشی حالات کو بدلنے کے لیے سیاسی حالات کا متوازن ہونا ضروری ہے مگر خوبصورت کپتان کی ٹیم تھی کہ ناقدین کا گروہ بن کر اسمبلی میں چور تو کبھی لٹیروں کے نعرے لگا کر اپنی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے تھے ۔

مان لیتے ہیں کہ مخالف جماعتیں کرپشن میں ملوث تھے مگر اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے نہ کہ بلاوجہ سیاسی بیانات داغ کر مقدمے کو کمزور کیا جاتا تھا ۔ ایوان کو مسترد کرکے صدارتی بل منظور کیے جاتے رہے اور غریب عوام کی جیب سے نکلنے والے پیسے سے اسمبلی کے اجلاس تو بلاۓ جاتے تھے مگر سواۓ فضول لغویات کے استعمال کہ کوئ خاطر خواہ قانون سازی نہ کی گئ ۔


موجودہ سیاسی حالات کو مدنظر رکھا جاۓ تو کابینہ اندرونی سیاسی اختلافات کا شکار ہے اور کمزور حکومت کو مزید ناکامی کے جھٹکے دینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ۔ جہاں حکومتی وزراء کا یہ حال تھا تو وہی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ اتحادی جماعتوں نے حکومت کو زیر اثر لانے کے لیے وقتی طور پر حکومت سے علحیدگی کے بیانات دینا شروع کر دیۓ ہیں۔


امن اور قانوں کی بالادستی کے دعوےدار ساہیوال جیسے واقع پر بیانات داغنے کے علاوہ کوئ خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھاسکے ۔ مرکز کے علاوہ تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر پولیس کے محکمہ میں سواۓ تبادلوں کے کوئ عملی قانون سازی نہ کی گئ جو کہ پولیس گردی کے واقعات میں اضافے کا باعث بنتی رہی ۔
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ غریب عوام کو ایک اور بحران کا سامنا کرنا پڑا ۔

اب باری تھی ان کی جن کے حکومت وقت پہ بہت احسانات تھے اگر یوں کہا جاۓ کہ حکومت وقت جن کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئ تھی ۔ چینی کی قیمتوں میں اس طرح اضافہ کیا گیا کہ ایک مخصوص گروہ نے اس بات کا خوب فائدہ اٹھایا ۔ خوراک کے بحران کی طرح چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ۔
حسب معمول رپورٹ پیش کی گئ تو پھر ثابت ہوا کہ چینی بحران کے پیچھے کچھ خاص حکومت سے وابستہ شخصیات کا ہاتھ تھا مگر حکومت وقت ان کے سامنے بےبس نظر آئ اور گروہ کامیاب ہو گیا ۔


کرونا کی وباء نے جہاں پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا وہی پاکستان بھی اس موذی مرض کا سامنا کررہا ہے مگر حکومتی اقدامات اور بیانات تذبذ کا شکار نظر آۓ ۔ وزیراعظم کبھی اس کو عام زکام تو کبھی سنجیدہ بیماری اے جوڑتے رہے ۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوۓ عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور کرونا کو ایک عام سی بیماری سمجھ کر تمام اصول و ضوابط کو مسترد کرتے رہے ۔


اسی تناظر میں عالمی معیشت کو کافی جھٹکا لگا اور تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی ہوئ ۔
اس وجہ سے پاکستان میں حکومت وقت نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ تو کیا مگر عمل کروانے میں ملکمل ناکام نظرآئ۔ پورے ملک میں نجی تیل کمپنیوں نے تیل کی ترسیل کو روک دیا تھا اور یوں سستے تیل کے فوائد عام آدمی تک نہ پہنچ سکے ۔

اس طرح ایک بار پھر تیل کا بحران پیدا کیا گیا ۔ایک بار پھر مافیا جیت گیا لیکن حکومت وقت گھٹنے ٹیک گئی ۔
مشہور مقولہ ہے کہ چار دن کی چاندنی اور پھر رات اندھیری پہ پورا اترتے ہوۓ ایک بار پھر مافیا کے زیر اثر تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کردیا ہے جس کے خلاف عوامی و سیاسی حلقوں  میں کافی سخت رد عمل پایا جا رہا ہے ۔
گزشتہ دن حکومت وقت کے وزیراعظم کا معمول سے ہٹ کر لہجہ میں خطان سننے کو ملا مگر افسوس یہ ہوا کہ حکومت میں ہونے کے باوجود مسائل کوایسے  بیان کررہے تھے جیسے ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے اور اگر ہوتا تو وہ سب کر گزرے ہوتے ۔

اس لہجے کو اگر حکومت کے شروعات میں اپنا لیا جاتا تو آج حالات بلکل یکسر ہو سکتے تھے مگر کشتی ابھی نہیں ڈوبی اس ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے یہی لب ولہجہ اور حکومت مخالف جماعتوں کو مثبت انداز میں ساتھ لے کر ایوان کو زیر اثر لایا جاۓ تو پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :